رسائی کے لنکس

امریکی حکام کو بتا دیا گیا تھا کہ انخلا کے بعد افغان فضائیہ اپنا وجود قائم نہیں رکھ پائے گی: رپورٹ


افغان ایئر فورس (فائل فوٹو)
افغان ایئر فورس (فائل فوٹو)

گزشتہ سال کے اوائل میں جب صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کا اعلان کیا اس سے چند مہینے قبل واشنگٹن میں قائم ایک نگران ادارے نے خبردار کیا تھا کہ امریکی امداد، تربیت اور دیکھ بھال کے بغیر افغان فضائی فوج جلد ہمت ہار جائے گی۔

اسپیشل انسپیکٹر جنرل برائے افغان تعمیرِ نو (سگار)، جان سوپکو نے یہ رپورٹ جنوری 2021ء میں امریکی محکمۂ دفاع میں جمع کرائی تھی، جسے منگل کے روز ڈی کلاسی فائی کیا گیا۔

رپورٹ میں یہ نشاندہی کی گئی تھی کہ امریکی حکام کو خبردار کیا گیا تھا کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان کی فضائی فوج اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے گی۔ رپورٹ میں خصوصی طور پر بتایا گیا تھا کہ امریکہ نے افغان معاون عملے کو درکار تربیت فراہم نہیں کی جس کی وجہ سے امریکی کانٹریکٹروں کی مدد کے بغیر فضائی فوج اپنے لڑاکا طیاروں کو استعمال کے قابل حالت میں قائم نہیں رکھ پائے گی۔

گزشتہ 20 برسوں کی تعیناتی کے دوران طالبان کے خلاف کارروائیوں کے لیے افغان حکومت کو امریکی فضائی مدد فراہم کی جاتی رہی تھی۔ جب امریکی فوج میدان میں نہیں رہے گی تو افغان فضائی فوج کی لڑنے کی صلاحیت باقی نہیں رہے گی اور یہی وجہ تھی کہ امریکی انخلا کے فوری بعد طالبان کو کھلا میدان میسر آیا۔

انسپکٹر جنرل کے دفتر نے پیر کے روز ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ عام طور پر ادارے کی رپورٹیں ڈی کلاسی فائی نہیں کی جاتیں، اور جب ایسا کیا جاتا ہے تو یہ کام پینٹاگان ہی کرتا ہے جو دو ماہ بعد کسی دستاویز کو ڈی کلاسی فائی کرتا ہے۔

دفتر نے بتایا کہ اس معاملے میں امریکی محکمہ دفاع نے ایک سال سے بھی زیادہ عرصے کی تاخیر سے کام لیا، جب کہ پانچ ماہ قبل طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے۔

یہ ادارہ 2008ء میں قائم کیا گیا تھا، اور رپورٹ میں تب سے افغانستان کی ترقی کے کام کے لیے خرچ کی گئی امریکی رقوم کی دستاویزات موجود ہیں۔ یکے بعد دیگرے، ان رپورٹوں میں بدعنوانی کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں، جن میں افغان اور امریکی قیادت کی ناکامیوں اور افغان فوج کی کمزوریوں کا ذکر آتا ہے اور صورتحال میں بہتری لانے کے لیے سفارشارت پیش کی گئی تھیں۔

افغان ائر فورس کی خواتین سولجرز کابل ائرپورٹ پر موجود ہیں ( 2013 کی ایک تصویر: رائٹرز)
افغان ائر فورس کی خواتین سولجرز کابل ائرپورٹ پر موجود ہیں ( 2013 کی ایک تصویر: رائٹرز)

سال 2001ء میں جب امریکی قیادت میں فوج نے افغانستان کو فتح کیا اور طالبان کو نکال باہر کیا، تب سے ایک طویل لڑائی جاری رہی، جس دوران امریکہ نے افغانستان کی تعمیر نو پر 145 ارب ڈالر کی رقم خرچ کی، جب کہ فوج کو تعینات رکھنے پر تقریباً ایک ٹریلین ڈالر کی لاگت آئی۔ افغان ملٹری فورسز کو قائم کرنے میں اربوں ڈالر خرچ آئے۔

طالبان اور ٹرمپ انتظامیہ کے مابین ایک سمجھوتہ طے ہوا جس کے بعد بائیڈن نے گزشتہ سال اپریل میں اعلان کیا کہ نیٹو کی 7500 فوج کے ساتھ ساتھ امریکہ کی باقی ماندہ 2500 سے 3500 تک فوج افغانستان سے نکل جائے گی۔ جوں ہی اس بات کا اعلان سامنے آیا، افغان دفاعی فورسز فوری طور پر قصہ پارینہ بنتی چلی گئیں۔

طالبان کی جانب سے اقتدار پر قبضہ فوری عمل تھا، جب متعدد علاقوں میں افغان فوج نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیے، جن میں سے متعدد کو افغان حکومت نے کئی ماہ سے تنخواہ نہیں دی تھی۔ گزشتہ سال جون اور جولائی کے دوران افغان لڑاکا طیاروں نے طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، لیکن یہ حملے اتنے مؤثر ثابت نہیں ہوئے کہ صورت حال کا پلڑا پلٹ سکتا۔

پندرہ اگست کو طالبان اس وقت کابل میں داخل ہوئے، جب امریکی حمایت کے ساتھ کام کرنے والے صدر اشرف غنی دارالحکومت سے فرار ہو گئے۔ اگست کے آخر تک امریکہ نے انخلا کا مشکل مرحلہ مکمل کیا اور ساتھ ہی لاکھوں افغانوں کو ملک سے باہر نکالنے میں مدد دی، جس دوران اس قسم کے واقعات بھی منظر عام پر آئے جب نوجوان افغان پرواز بھرتے امریکی طیاروں سے اس کوشش میں چمٹ گئے کہ وہ کسی طرح سے امریکہ پہنچ جائیں اور طالبان کے سخت گیر اور پابندیوں والی حکمرانی کے دور سے پہلے ہی ملک سے باہر نکل جائیں۔

اس سے چند ہی ماہ قبل افغان عہدے داروں نے متنبہ کیا تھا کہ افغان فضائی فوج میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ اپنے طور پر برقرار رہ سکے۔ شمالی افغانستان کے ایک طاقتور جنگی سردار، عطا محمد نور 2001ء میں طالبان کو شکست دینے کے کام میں اہم امریکی اتحادی ثابت ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا ہے کہ افغان فضائی فوج اپنی سکت سے زیادہ لڑ چکی ہے لیکن اس کے پاس وسائل کی کمی ہے۔

بقول ان کے، ''زیادہ تر لڑاکا جہاز زمین پر کھڑے ہیں۔ وہ پرواز نہیں کر سکتے، جب کہ زیادہ تر میں گولہ بارود کی درکار رسد موجود نہیں ہے''۔

’ سگار‘ کی اس تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2010ء اور 2019ء کے درمیان افغان ایئر فورس اور اس کا جدید تربیت یافتہ دستے کوم جسے 'اسپیشل مشن ونگ' کہا جاتا ہے، قائم کرنے اور تربیت فراہم کرنے پر 8.5 ارب ڈالر کی لاگت آئی۔ لیکن، رپورٹ میں متنبہہ کیا گیا ہے کہ دونوں ہی مشکل صورت حال سے نمٹنے کے قابل نہیں ہیں۔ اس میں مزید خبردار کیا گیا ہے کہ سینکڑوں امریکی کانٹریکٹروں کو لڑاکا بیڑے سے قطعی طور پر الگ نہیں کیا جا سکتا۔

رپورٹ کے مطابق، سال 2019ء میں نیٹو اور امریکہ نے افغان فضائی فورس کی تعمیر سے ہٹ کر دھیان محض اس جانب دیا کہ کسی طرح سے یہ طویل مدت تک باقی رہ سکے۔

تاہم، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سوپکو نے افغان فضائی فورس کو ناکامی کا گریڈ دیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ افغان ایئر فورس ابھی تک اس قابل نہیں ہو سکی کہ وہ تربیت یافتہ عملہ تشکیل دے جس کی مدد سے وہ اپنے اوپر انحصار کر سکے۔

انھوں نے بتایا کہ امریکی اور نیٹو کے فوجی اہل کاروں کے علاوہ امریکی فنڈز پر تعینات کانٹریکٹروں نے پائلٹوں کی تربیت پر دھیان مرکوز کر رکھا تھا لیکن انھوں نے افغان ایئر فورس کے 86 فی صد عملے کی تربیت کو کوئی اہمیت نہیں دی، جن میں 'سپورٹ اسٹاف' بھی شامل ہے۔

(اس رپورٹ کے لیے مواد اے پی سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG