پاکستان کے میگا سٹی کراچی کے شہریوں کو زندہ رہنے کے لئے جہاں اور بہت سارے مسائل سے دن رات لڑنا پڑتا ہے وہیں ایک گمبھیر مسئلہ وہ گٹر بھی ہیں جن پر اکثر و بیشتر ڈھکن نہیں ہوتے۔۔۔اور جو شہریوں کے لئے کسی ’موت کے کنویں‘ سے کم نہیں۔
ہر بار صوبائی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ عوامی مسائل کی جانب بھرپور توجہ دے گی۔ لیکن، ایسا ہو نہیں پاتا۔ تاہم، مسائل کی جانب توجہ مبذول کرنے کیلئے ایک شہری نے ’اچھوتا اور موثر‘ انداز اپنایا ہے، جس نے بڑی سرعت سے شہریوں کے ساتھ ساتھ صوبائی وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کو بھی آخر کار اپنی جانب متوجہ کر ہی لیا ہے۔
گلشن اقبال کے رہائشی عالمگیر خان نے وزیر اعلیٰ کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کیلئے وزیر اعلیٰ کے چہرے کا دھاتی اسٹینسل کاٹ کر اس مدد سے کچرے کے ڈھیر ، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور کھلے مین ہولز کے سامنے سفید رنگ سے چھاپ کر انگریزی میں مختصر پیغامات تحریر کردیئے ہیں جن کا مقصدحکام کو ان کی ذمے داری باور کرانا ہے۔
عالمگیر خان کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔ لیکن، ان کا کہنا ہے کہ اس مہم کے سیاسی مقاصد نہیں۔ یہ انہوں نے ذاتی حیثیت میں شروع کی ہے اور یہ مہم کراچی کے عام شہری کیلئے ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔
اس انوکھی ’اسٹینسل مہم‘ کو میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے دیکھتے ہی دیکھتے عوامی پذیرائی مل گئی یہاں تک کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو نوٹس لینا پڑا۔ انہوں نے ایڈمنسٹریٹر کراچی کو ہدایت کی ہے کہ دو روز کے اندر اندر اس مسئلے کو حل کیا جائے اور گٹروں پر دھکن نصب کئے جائیں۔
انہوں نے ایڈمنسٹریٹر کو ٹیلی فون کیا اور شہری مسائل حل نہ ہونے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ اطلاعات کے مطابق، وزیر اعلیٰ نے برہمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا اب گٹر کے ڈھکنے بھی وزیراعلیٰ لگائے گا؟‘
کھلے مین ہولز ۔۔موت کے کنویں
شہر میں کھلے مین ہولز ’موت کے کنویں‘ ہیں اور جانے اب تک کتنے بچوں کی جان لے چکے ہیں۔ اخباری تراشوں کو تاریخ مان کر مطالعہ کریں تو سال بہ سال ہونے والے ایسے واقعات کی ایک لمبی فہرست تیار ہوجائے گی جن میں معصوم بچے بے خیالی میں ہی موت کی گود میں چلے گئے۔
ایسا ہی ایک دلخراش واقعہ 15 ستمبر 2007ء یکم رمضان بروز ہفتے کو بھی پیش آیا۔ دن کے ایک بجے کے قریب 11 سالہ طحہٰ کو اس کی ماں نے گھرکے قریب سے سودا لینے بھیجا۔
اس وقت طحہٰ کے والد معین الدین اپنے دفتر میں تھے۔ طحہٰ ماں کا کہا ماننے گھر سے نکالا۔ لیکن، واپسی کے وقت بے خیالی میں سڑک پر کھلے ایک مین ہول میں گر گیا۔
یہ لیاقت آباد کا واقعہ ہے۔ اس وقت گٹر میں گندے پانی کا بہاوٴ بہت تیز تھا اور طحہٰ ان بے رحم موجوں کا مقابلہ نہ کرسکا اور دیکھتے ہی دیکھتے لاپتہ ہوگیا۔ رات بھر اس کی تلاش جاری رہی۔ اگلے دن یعنی اتوار کو طحہٰ کا بے جان جسم گولیمار کے علاقے خاموش کالونی سے اس حالت میں ملا کہ پہچاننے کے لئے بھی کپڑوں کا سہارا لینا پڑا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں معین الدین کا کہنا تھا کہ ’واقعہ رونما ہوئے کئی برس بیت گئے۔ لیکن واقعے کا زخم آج بھی ہرا ہے۔ آج بھی کسی بغیر ڈھکن کے گٹر کو دیکھوں تو گھنٹوں کے لئے اس دن کی تلخ یادوں سے تڑپ اٹھتا ہوں۔۔کس کو قصور وار کہوں۔۔ کس سے گلہ کروں۔ آج تک کوئی ذمے دار سامنے نہیں آیا، کچھ لوگ معطل ہوئے ۔۔پھر شائدبحال بھی ہوگئے ہوں۔ لیکن میرا طحہ تو ہمیشہ کے لئے چلا گیا۔ اس کی کتابیں، کپڑے، بستہ۔۔اور سب سے بڑھ کر۔۔ لمس ۔۔جینے نہیں دیتا لیکن پھر بھی زندہ ہیں۔۔۔ حکام بالا سے گزارش ہے خدارا اس سے پہلے سے کہ مزید طحہٰ بغیر کئے کی سزا میں موت کے منہ میں چلے جائیں۔۔اس سے قبل کہ مزید والدین ہماری طرح خالی خالی سینوں میں دم گھوٹ کر جینے پر مجبور ہوں۔۔ اس شہر کے گٹروں پر ڈھکن رکھ دیں۔۔پلیز۔۔۔پلیز۔۔۔‘