صدر نے کہا کہ 2014ء کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کا کام تربیت اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے باقی ماندہ القاعدہ عناصر سے نبردآزما ہونے کی کارروائیوں تک محدود ہوگا
واشنگٹن —
صدر براک اوباما نے منگل کے روز اعلان کیا کہ 2014ء کے اواخر تک امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں تربیت اور سلامتی سے متعلق ہنگامی فرائض کی انجام دہی کے لیے 9800
فوج افغانستان میں باقی رہے گی۔
وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن سے اپنے خطاب میں، صدر اوباما نے کہا کہ 2016ء کے آخر تک تمام امریکی فوج افغانستان سے چلی جائے گی۔
اپنی تقریر میں صدر نے کہا کہ 2014ء کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کا کام تربیت اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے باقی ماندہ القاعدہ عناصر سے نبردآزما ہونے تک محدود ہوکر رہ جائے گا۔
اس وقت افغانستان میں تعنات امریکی فوج کی تعداد 32000ہے، جب کہ اگلے سال کے آغاز تک یہ تعداد محدود ہو کر 9800 رہ جائے گی۔
صدر اوباما نے کہا کہ ’امریکی خارجہ پالیسی کے اس نئے باب پر عمل درآمد سے امریکہ فوجی اخراجات پر اٹھنے والی لاگت بچ سکے گی، جسے دوسری مدوں میں استعمال کیا جاسکے گا، اور یوں دنیا کے دیگر حصوں میں اپنی ترجیحات پر بہتر دھیان دیا جا سکتا ہے۔
افغانستان میں کچھ فوج باقی رہنے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اگلا افغان صدرسلامتی کے دو طرفہ سمجھوتے پر دستخط کرے۔
صدر نے کہا کہ افغان صدارتی انتخابات کے دو سرکردہ امیدواروں نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اِس باہمی سمجھوتے پر دستخط کریں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ ’ایک خودمختار اور متحد افغانستان پر یقین رکھتا ہے‘، اور افغانستان کے مستقبل کا دارومدار خود افغانوں پر ہوگا۔
بقول اُن کے، ہم امید رکھتے ہیں کہ افغانستان آگے کی طرف قدم بڑھائے گا، اورافغان عوام اپنے فیصلے خود کریں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ افغانوں کو یہ مدد فراہم کرنا چاہتا ہے کہ القاعدہ کی باقیات کو محفوظ ٹھکانے میسر نہ آئیں، جنھیں تباہ کردیا جائے گا۔
صدر نے صاف الفاظ میں کہا کہ 2016ء کے بعد کوئی فوجی افغانستان میں باقی نہیں رہے گا، اور تب سے دونوں ملکوں کے مابین ’معمول کے سفارت کاری کے تعلقات‘ باقی رہیں گے۔
صدر اوباما نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایک عشرے بعد ایک نئے باب کا آغاز کیا جائے، جس دوران امریکی خارجہ پالیسی افغانستان اور عراق کی جنگوں پر مرتکز رہی ہے۔
پچھلے برسوں میں افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعداد 100000 تک تھی، جو کم ہو کر 32000رہ گئی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ان 13 سالوں کے دوران، امریکہ کی یہ کوشش رہی ہے کہ القاعدہ کی عزائم کو خاک میں ملایا جائے، جو، امریکہ کے بقول، 2001ء میں ملک پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کا ذمہ دار ہے، جن حملوں میں تقریباً 3000 افراد ہلاک ہوئے۔
مسٹر اوباما نے مزید کہا کہ 2015ء کے آغاز پر امریکی فوجوں کی تعداد 9800 رہ جائے گی، جس کی ایک سال بعد تعداد نصف ہوگی، اور 2017ء کے اوائل میں جب اُن کی صدارت کی میعاد مکمل ہو رہی ہوگی، افغانستان میں صرف 1000 کے قریب فوجی تعنات ہوں گے۔
بدھ، 28 مئی کو مسٹر اوباما نیویارک میں ’امریکی ملٹری اکیڈمی‘ سے خطاب کرنے والے ہیں، جس میں وہ ملکی خارجہ پالیسی کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔
فوج افغانستان میں باقی رہے گی۔
وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن سے اپنے خطاب میں، صدر اوباما نے کہا کہ 2016ء کے آخر تک تمام امریکی فوج افغانستان سے چلی جائے گی۔
اپنی تقریر میں صدر نے کہا کہ 2014ء کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کا کام تربیت اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے باقی ماندہ القاعدہ عناصر سے نبردآزما ہونے تک محدود ہوکر رہ جائے گا۔
اس وقت افغانستان میں تعنات امریکی فوج کی تعداد 32000ہے، جب کہ اگلے سال کے آغاز تک یہ تعداد محدود ہو کر 9800 رہ جائے گی۔
صدر اوباما نے کہا کہ ’امریکی خارجہ پالیسی کے اس نئے باب پر عمل درآمد سے امریکہ فوجی اخراجات پر اٹھنے والی لاگت بچ سکے گی، جسے دوسری مدوں میں استعمال کیا جاسکے گا، اور یوں دنیا کے دیگر حصوں میں اپنی ترجیحات پر بہتر دھیان دیا جا سکتا ہے۔
افغانستان میں کچھ فوج باقی رہنے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اگلا افغان صدرسلامتی کے دو طرفہ سمجھوتے پر دستخط کرے۔
صدر نے کہا کہ افغان صدارتی انتخابات کے دو سرکردہ امیدواروں نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اِس باہمی سمجھوتے پر دستخط کریں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ ’ایک خودمختار اور متحد افغانستان پر یقین رکھتا ہے‘، اور افغانستان کے مستقبل کا دارومدار خود افغانوں پر ہوگا۔
بقول اُن کے، ہم امید رکھتے ہیں کہ افغانستان آگے کی طرف قدم بڑھائے گا، اورافغان عوام اپنے فیصلے خود کریں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ افغانوں کو یہ مدد فراہم کرنا چاہتا ہے کہ القاعدہ کی باقیات کو محفوظ ٹھکانے میسر نہ آئیں، جنھیں تباہ کردیا جائے گا۔
صدر نے صاف الفاظ میں کہا کہ 2016ء کے بعد کوئی فوجی افغانستان میں باقی نہیں رہے گا، اور تب سے دونوں ملکوں کے مابین ’معمول کے سفارت کاری کے تعلقات‘ باقی رہیں گے۔
صدر اوباما نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایک عشرے بعد ایک نئے باب کا آغاز کیا جائے، جس دوران امریکی خارجہ پالیسی افغانستان اور عراق کی جنگوں پر مرتکز رہی ہے۔
پچھلے برسوں میں افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعداد 100000 تک تھی، جو کم ہو کر 32000رہ گئی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ان 13 سالوں کے دوران، امریکہ کی یہ کوشش رہی ہے کہ القاعدہ کی عزائم کو خاک میں ملایا جائے، جو، امریکہ کے بقول، 2001ء میں ملک پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کا ذمہ دار ہے، جن حملوں میں تقریباً 3000 افراد ہلاک ہوئے۔
مسٹر اوباما نے مزید کہا کہ 2015ء کے آغاز پر امریکی فوجوں کی تعداد 9800 رہ جائے گی، جس کی ایک سال بعد تعداد نصف ہوگی، اور 2017ء کے اوائل میں جب اُن کی صدارت کی میعاد مکمل ہو رہی ہوگی، افغانستان میں صرف 1000 کے قریب فوجی تعنات ہوں گے۔
بدھ، 28 مئی کو مسٹر اوباما نیویارک میں ’امریکی ملٹری اکیڈمی‘ سے خطاب کرنے والے ہیں، جس میں وہ ملکی خارجہ پالیسی کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔