افغانستان میں امریکی جنگ کو دس سال ہونے کو ہیں جس پر اربوں ڈالر خرچ ہو چکے ہیں اور جس کے اثرات امریکہ کی معیشت پر بھی نظر آتے ہیں۔
اس سال آرلنگٹن کے فوجی قبرستان میں امریکہ کے میموریل ڈے کی تقریب کے بعد صدر براک اوباما افغانستان اور عراق میں اپنی جانیں گنوانے والے فوجیوں کی قبروں پر بھی گئے ۔ آئندہ ماہ افغانستان میں موجود ایک لاکھ امریکی فوجیوں کے مرحلہ وار انخلاء کا آغاز ہونے والا ہے ، اور ماہرین کےخیال میں اس کی ایک اہم وجہ جنگ میں ہونے والا جانی نقصان ہے۔
صدر اوباما نے افغانستان سے انخلا کے آغاز کے فیصلے کا اعلان 2009 ءمیں افغانستان کے لیے اپنی نئی حکمت عملی بیان کرتے ہوئے کیا تھا۔اب جب کہ امریکی دفاعی عہدیدار اہم علاقوں میں طالبان کے خلاف کامیابیوں کے تذکرے کر رہےہیں ، امریکہ کی عسکری قیادت جانی نقصانات میں اضافے کے بارے میں فکر مند ہے ۔ماضی میں کئی اور صدور کی طرح اراکین کانگریس کی جانب سے موجودہ صدر کو مشورے دینے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔
گزشتہ ہفتے ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر لنڈی گراہم نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا تھا کہ افغانستان میں نیٹو اور امریکہ کو فوجوں کے انخلاء کے بارے میں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ ان کا کہناتھا کہ اگر ہم اس وقت فوجیوں کی واپسی کی رفتاراس لئے تیز کرتے ہیں کہ ہم جنگ سے تھک چکے ہیں تو ہم یہ جنگ ہار جائیں گے۔
ری پبلیکن پارٹی کے ایک اور رکن سینیٹر رچرڈ لوگرنے صدر اوباما پر زور دیا ہے کہ وہ جنگ کے بارے میں ایک مجموعی پالیسی واضح کریں اورافغانستان میں فتح کا مطلب بھی واضح کریں۔
انہوں نے کہا کہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس لمبے عرصے تک رقم خرچ کئے بغیر اور افغان حکومتی اداروں پر زیادہ انحصار کئے بغیر مفادات کے تحفظ کے لئے کوئی مناسب حکمت عملی ہے یا نہیں۔
صدر اوباما کے انخلا کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب امریکی عوام میں افغان جنگ کے بارے میں حمایت میں کمی آرہی ہے۔
امریکی ریاست میری لینڈ میں امریکی ریاستوں کے میئرز کے اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جنگ میں اٹھنے والے اربوں ڈالر ملک کے اندر ضروری منصوبوں پر صرف کئے جائیں ۔
اور حال ہی میں پینٹاگون میں وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے جنگ کے بارے میں امریکیوں کی بے صبری کاذکر کیا تھا۔
ان کا کہناتھا کہ میرے خیال میں دس سال کی جنگ کے بعد لوگوں کی ناخوشی اوران کے تنگ آنے کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ جیسے ہم نے عراق میں کافی حد تک اپنے اہداف حاصل کر لئے ہیں اسی طرح افغانستان میں ہم اپنا مشن کیسے مکمل کریں ، اپنے مفادات کو تحفظ دیں اور استحکام کو یقینی بنائیں۔
افغانستان کے بارے میں صدر اوباما کی پالیسی پر عمل کے لئے جلد ہی نئے وزیر دفاع لیون پنیٹا اور دوسرے اعلی ٰ سویلین اور فوجی عہدیدار اپنے عہدے سنبھالنے والے ہیں ۔ جن میں افغانستان میں فوج کے نئے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل جان ایلن اور کابل میں امریکہ کے نئے سفیرریاں کروکرشامل ہیں۔