امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ مسٹر اوباما کی کوشش یہ ہے کہ دو سربراہ کانفرنسوں میں دو طرفہ بات چیت اور آسٹریلیا کے دورے کے ذریعے سیکورٹی اور اقتصادی شعبوں میں امریکہ کے رول اور تعاون کے معاہدوں کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے ۔
وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جے کارنے نے حال ہی میں صدر کے دورے کے ایک اور بنیادی مقصد کا ذکر کیا، یعنی ایشیا پیسفک کے علاقے اور امریکہ کی اقتصادی بحالی اور روزگار کے مواقع کے درمیان تعلق کو مضبوط بنانا۔ انھوں نے کہا’’APEC سربراہ کانفرنس اور مشرقی ایشیا کی سربراہ کانفرنس، اور دورے کے دوسرے اجزا کے ذریعے ، صدر بعض اہم چیزوں پر نئے سرے سے توجہ دینا چاہتے ہیں اور نیا توازن قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کوشش کا براہِ راست اثر اقتصادی محاذ پر پڑے گا، یعنی ان کے اس مقصد پر کہ ایشیا پیسفک کے علاقے کے ملکوں کے ساتھ ہماری بر آمدات کو دگنا کیا جائے اور ہماری تجارت میں اضافہ کیا جائے۔‘‘
ہفتے کے روز ہوائی میں، صدر اوباما APEC کے نو ملکوں کی ایک میٹنگ کی میزبانی کریں گے جس میں آزاد تجارت کے ایک نسبتاً چھوٹے ابھرتے ہوئے گروپ ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ کی تشکیل کے بارے میں مذاکرات ہوں گے۔
اپنے دورے کی اولین میٹنگوں کے سلسلے میں، صدر جاپان کے وزیرِ اعظم یوشی ہیکو نوڈا روس کے صدر دمتری میدویدف اور چین کے صدر ہوجن تاؤ سے ملیں گے ۔ مسٹر اوباما کے آسٹریلیا کے سرکاری دورے میں، معاہدۂ ANZUS کی ساٹھویں سالگرہ کے موقع پر، اس دو فریقی اتحاد کی طاقت نمایاں ہو گی۔ وہ کینبرا میں پارلیمنٹ سے خطاب کریں گے، شمال میں ڈارون کا دورہ کریں گے اور آسٹریلیا کے فوجیوں کو خطاب کریں گے۔
اگرچہ وائٹ ہاؤس کے عہدے داروں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے، لیکن توقع ہے کہ مسٹر اوباما اور آسٹریلیا کی وزیرِ اعظم جولیا گیلارڈ ایک نئے سمجھوتے کا اعلان کریں گے جس کے تحت امریکی فوج کو آسٹریلیا کے فوجی اڈوں تک زیادہ وسیع رسائی حاصل ہو جائے گی ۔اگلے ہفتے بالی میں، مسٹر اوباما علاقائی لیڈروں کے ساتھ دو طرفہ میٹنگیں کریں گے۔ پہلی میٹنگ بھارت کے وزیرِ اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ ہوگی۔
امریکہ کی ایشیا پیسفک حکمت عملی میں بھارت کی مشرق کو توجہ دینے کی پالیسی کی حوصلہ افزائی شامل ہے ۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے ڈپٹی سیکرٹری ویلیم برنز نے حال ہی میں واشنگٹن میں اس موضوع پر اظہارِ خیال کیا۔ انھوں نے کہا’’صدر نے کہا ہے کہ اکیسویں صدی میں بھارت کا شمار ان ملکوں میں ہوگا جو ہمارے اہم ترین شراکت دار ہوں گے ۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ بھارت ایشیا پیسفک میں انتہائی اہم شراکت دار ہو۔‘‘
APEC کی میٹنگ میں بیشتر توجہ اقتصادی امور پر دی جائے گی ۔ اس کے بر عکس، مشرقی ایشیا کی سربراہ کانفرنس میں موضوعِ بحث ، سیاسی اور سیکورٹی کے چیلنج ہوں گے ۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بالی میں لیڈروں کے سامنے جو مسائل ہوں گے، ان میں جنوبی چین کے سمندر میں چینی عزائم کے بارے میں علاقے کے لیڈروں کی تشویش شامل ہو گی۔
واشنگٹن کے سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹیڈیز کے مائیکل گرین کہتے ہیں کہ اس سربراہ کانفرنس میں علاقے کے ملکوں کی تشویش، حساس نوعیت کے مسائل اور ایجنڈوں کے درمیان نازک سا توازن قائم رکھا جائے گا۔’’مشرقی ایشیا کی سربراہ کانفرنس کے بہت سے ملک ہم سے یہ چاہیں گے کہ ہم بات تو نرمی سے کریں لیکن اپنی فوجی طاقت برقرار رکھیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ جب وہ چین کے ساتھ اور ہمارے ساتھ تجارت کریں، تو ہم توازن اور استحکام قائم رکھنے کے لیے موجود ہوں۔ لیکن وہ یہ نہیں چاہتے کہ ہم کُھل کر چین کے خلاف طاقت کا مظاہرہ کریں اور انہیں مشکل میں ڈال دیں۔‘‘
مسٹر اوباما نومبر 23 کی ڈیڈ لائن سے چند روز قبل واشنگٹن واپس پہنچیں گے۔ یہ وہ تاریخ ہے جب امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کو سرکاری اخراجات میں ایک اعشاریہ دو ٹریلین ڈالر کی کٹوتی پر متفق ہونا ہے ۔ امریکہ کی اقتصادی بحالی پر اس اقدام کے بڑے دور رس اثرات مرتب ہوں گے ۔
وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر بین روہڈز کہتے ہیں کہ مسٹر اوباما جانتے ہیں کہ ایشیا پیسفک کے لیڈر واشنگٹن کی صورتِ حال پر کڑی نظر رکھیں گے۔ لیکن مسٹر اوباما انہیں یہ یقین دہانی کرائیں گے کہ وفاقی بجٹ میں کمی کے مشکل دور میں بھی، امریکہ علاقے میں اپنا اہم کردار ادا کرتا رہے گا۔