عراق میں فوجی تربیت کی فراہمی میں مدد دینے کے لیے، امریکی صدر براک اوباما نے بدھ کے روز مزید 450 امریکی فوجی عراق روانہ کرنے کی منظوری دی ہے۔
اِس اقدام کا مقصد عراقی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے، تاکہ رمادی پر تسلط ختم کرنے کی عراقی فوج کی کوششوں میں مدد دی جا سکے۔
داعش کے باغیوں نے صوبہٴانبار کے دارلحکومت، رمادی پر قبضہ کر لیا تھا۔
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ عراق میں پہلے ہی امریکہ کے 3100 تربیت کار موجود ہیں، جب کہ اِن اضافی تربیت کاروں کی موجودگی کے باعث فوجی تربیت کے کام میں تیزی آئے گی۔
تاہم، مسٹر اوباما نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ سنہ 2011 میں عراق سے فوجی انخلا کے بعد امریکہ بَری فوج کی تعیناتی نہیں کرے گا۔
ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر نے عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی کی درخواست اور امریکی دفاع کے سربراہان کی سفارش پر تربیت کاروں کی یہ اضافی کمک روانہ کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ مسٹر اوباما نے اہل کاروں کو حکم صادر کیا ہے کہ وہ عراق اور شام میں غیرملکی لڑاکوں کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی کوششیں بڑھا دیں، کیونکہ جس بات کا ڈر ہے وہ یہ ہے کہ بالآخر یہ لوگ اپنے وطن لوٹ کر حملوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔
امریکہ ’التقدم‘ کے مقام پر ایک نئی تربیت گاہ کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے، جو صحرا میں قائم ایک فضائی اڈا ہے، جو کسی زمانے میں امریکی فوج کا مرکز ہوا کرتا تھا۔
رواں ہفتے کے اوائل میں، مسٹر اوباما نے تسلیم کیا تھا کہ ستمبر سے اب تک عراق اور شام میں داعش کے اہداف کے خلاف 4400 فضائی حملے کیے جانے کے باوجود، امریکہ نے اب تک حکومت عراق سے مل کر ایک ’مکمل حکمت عملی‘ ترتیب نہیں دی، جس کے تحت عراق کی مزید فوج کو تربیت فراہم کی جا سکے، خصوصی طور پر سنی قبائل کو، جو رمادی کا تسلط خالی کرانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
امریکہ نے گذشتہ برس 9000 عراقی فوجیوں کو تربیت فراہم کی تھی، جب کہ وہ مزید 3000 عراقی فوجیوں کو تربیت دے رہا ہے۔ تاہم، ابھی یہ واضح نہیں آیا عراق مزید کتنے رنگروٹ بھرتی کرے گا۔
اِس سال قبل، دولت اسلامیہ نے عراق کے دوسرے بڑے شہر، موصل پر قبضہ کر لیا تھا، جب کہ اُس نے اب رمادی پر تسلط حاصل کر لیا ہے۔ واشنگٹن میں اس بات پر نکتہ چینی بڑھ رہی ہے کہ مسٹر اوباما شدت پسندوں کے خلاف صرف فضائی کارروائی کی اجازت دیتے ہیں۔۔
ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر کے چند مخالف ریپبلیکن ارکان مطالبہ کر رکھا ہے کہ داعش کے باغیوں سے لڑنے کے لیے امریکی بَری فوج کو تعینات کیا جائے، جنھوں نے عراق اور ہمسایہ شام میں خاصے بڑے رقبے پر فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔