میانمار میں حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ کے صدر براک اوباما نے میانمار کے صدر تھائن شین کو ملک میں ’’تاریخی، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات‘‘ پر مبارکباد دی ہے۔
میانمار کے وزیر اطلاعات یی ٹُٹ نے جمعرات کو اپنے فیس بک صفحے پر بتایا کہ صدر اوباما نے تھائن شین کو بدھ کو ٹیلی فون کر کے مبارکباد دی۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے ابھی اس ٹیلی فون کال کی تصدیق نہیں کی گئی مگر اس سے قبل امریکی حکام نے ان انتخابات کو آگے کی جانب ایک قدم قرار دیا تھا۔
اب تک کے انتخابی نتائج کے مطابق آنگ سان سو چی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہونے کی توقع ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے پارلیمان کے ایوان زیریں کی 440 میں سے اب تک 243 نشستوں کے نتائج کا اعلان کیا جا چکا ہے جن میں سے 196 این ایل ڈی نے حاصل کی ہیں، لہٰذا اس کی کامیابی کا تناسب 80 فیصد سے زائد ہے۔ ایوان بالا میں بھی این ایل ڈی 116 میں سے 95 نشستیں حاصل کر کے آگے ہے۔
حکومتی عہدیداروں نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ انتخابی نتائج کا احترام کریں گے۔
این ایل ڈی نے بدھ کو کہا تھا کہ اسے صدر تھائن شین کی جانب سے پیغام موصول ہوا ہے جس میں انہوں نے این ایل ڈی کی کامیابی کی تصدیق ہونے کے بعد ’’اقتدار کی پرامن منتقلی‘‘ کا وعدہ کیا ہے۔
وسیع سیاسی اثرورسوخ کی حامل میانمار کی فوج نے بھی انتخابات کے نتائج کے احترام کا عندیہ دیا ہے۔
میانمار کی فوج کے جنرل من آنگ ہلینگ نے ایک فیس بک بیان میں کہا کہ ’’(میانمار کی مسلح افواج) انتخابات کے بعد نئی حکومت سے تعاون کے ساتھ جو بہترین ہوا وہ کریں گی۔‘‘
2008 کے آئین کے مطابق 440 نشستوں پر مشتمل پارلیمان میں 25 فیصد نشستوں پر نمائندے نامزد کرنے کا اختیار فوج کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ فوج کے سربراہ کو تین اہم اور بڑے بجٹ والی وزارتوں کے سربراہ چننے کا اختیار حاصل ہے۔ فوج کے سربراہ کو مخصوص حالات میں حکومت کو معزول کرکے اقتدار سنبھالنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ این ایل ڈی کو آئینی ترامیم کی راہ میں فوج کو حائل ہونے سے روکنے کے لیے دو ایوانوں پر مشتمل مقننہ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنا ہو گی۔
آئین میں 70 سالہ آنگ سان سو چی کے صدر بننے پر پابندی عائد ہے کیونکہ ان کے مرحوم شوہر اور دو بچے برطانوی شہری ہیں۔ تاہم بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے اصرار کیا کہ صدر جو کوئی بھی ہو این ایل ڈی کی رہنما کی حیثیت سے تمام فیصلے وہ کریں گی۔
فوج اور پارلیمان کی بڑی جماعتیں اگلے سال صدر کے انتخاب کے لیے اپنے اپنے امیدوار نامزد کریں گی۔ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کو صدر منتخب کیا جائے گا جبکہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والے دو امیدوار نائب صدر ہوں گے۔