میانمار کے عام انتخابات میں اتوار کی شام گئے ووٹوں کی گنتی کا کام جاری ہے، جہاں 25 برسوں کے بعد ہونے والے نسبتاً آزادانہ الیکشن کے لیے ووٹنگ میں 80 فی صد سے زائد ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
رجسٹرڈ ووٹروں کی کُل تعداد تین کروڑ 20 لاکھ تھی، جب کہ قومی پارلیمان کے دونوں ایوانوں اور علاقائی اسمبلیوں کے لیے امیدواروں کی تعداد 6000 سے زائد ہے۔
ینگون میں اتوار کے روز 'بہان ٹائون' قصبے میں آنگ سان سوچی کے گھر کے قریب واقع پولنگ اسٹیشن پر ملک کی اس سب سے معروف اور اہم امیدوار اور نیشنل لیگ فور ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی رہنما کے سینکڑوں حامیوں اور صحافیوں کا ایک مجمع اکٹھا تھا۔
لوگوں کی بھیڑ سے نہ تو اُنھوں نے خطاب کیا ناہی کوئی بات کی، ایسے میں جب بیلٹ باکس جانے کے لیے ،اُن کے محافظوں نے راستہ بنایا، جب کہ اس منظر کو فوٹوگرافروں اور ٹیلی ویژن کیمرائوں نے فلمبند کیا۔
ملک کی پارلیمان 664 نشستوں پر مشتمل ہے، جس میں 25 فیصد سیٹیں فوج کے نمائندوں کے لیے مختص ہوں گی۔
انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کی تعداد 90 بتائی جاتی ہے۔
پولنگ کا عمل شروع ہونے سے قبل ہی لوگوں پولنگ اسٹیشنز پر لوگوں کی لمبی قطاریں لگنا شروع ہو گئی تھیں۔
صدر تھین شین اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی کامیاب ہونے والی حزب مخالف کی جماعتوں کے ساتھ انتقال اقتدار کے سلسلے میں تعاون کریں گے۔
بقول اُن کے، 'حکومت اور فوج انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرے گی۔ میں انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر بننے والی نئی حکومت کو تسلیم کروں گا۔'
جمہوریت نواز حزب مخالف کی رہنما اور نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی 'این ایل ڈی' سے متعلق توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ وہ انتخابات میں اکثریت حاصل کر لے گی۔
انتخابات کی نگرانی کے یہاں موجود یورپی یونین انتخابی مبصر مشن کے سربراہ الیگزینڈر لمبسڈورف خاصے پرجوش دکھائی دیے لیکن ان کے بقول یہ انتخابات 'غلطیوں سے پوری طرح مبرا نہیں ہوں گے۔'
وہ اپنی ٹیم کے ساتھ پولنگ کے بعد ایک مزید ایک ہفتے کے لیے یہاں قیام کریں گے تاکہ ووٹوں کی گنتی اور دیگر مراحل کا جائزہ لے سکیں۔
امریکہ سمیت متعدد ملکوں نے کہا ہے کہ وہ میانمار میں ہونے والے انتخابات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔