دہشت گرد ایک ارب مسلمانوں کی ترجمانی نہیں کرتے: صدر اوباما

امریکی صدر نے دنیا بھر کے شہریوں اور مذہبی راہنماؤں پر زور دیا کہ وہ اس خیال کو مسترد کردیں کہ دہشت گرد گروہ اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں۔

امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ دہشت گردی اور پُرتشدد انتہا پسندی کے خلاف اقدام میں تمام ملکوں کو یکجا ہونا پڑے گا۔

انسداد دہشت گردی کے عنوان پر بدھ کے روز منعقدہ بین الاقوامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا ہے کہ دہشت گرد، ایک ارب مسلمانوں کی ترجمانی نہیں کرتے۔

امریکی صدر نے دنیا بھر کے شہری اور مذہبی راہنماؤں پر زور دیا کہ وہ ’شدت پسندوں کےجھوٹے وعدوں‘ کے خلاف جنگ میں متحد ہوجائیں اور اس خیال کو مسترد کردیں کی ’دہشت گرد‘ گروہ اسلام کی غمازی کرتے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ ’وہ اپنے آپ کو مذہبی راہنما اور مقدس جنگجو ظاہر کرتے ہیں‘۔

بقول اُن کے، ’وہ مذہبی لیڈر نہیں ہیں، وہ دہشت گرد ہیں۔ ہم اسلام کے خلاف صف آرا نہیں ہیں۔ ہم اُن افراد کے خلاف نبردآزما ہیں جنھوں نے اسلام کا نام بدنام کیا ہے‘۔

اس سے قبل، امریکی صدر نے کہا کہ، ’ضرورت اِس بات کی ہے کہ پُرتشدد انتہا پسندوں کو بھرتی کرنے والوں اور پروپیگنڈہ پر مامور افراد کا دنیا متحد ہوکر یکسوئی سے مقابلہ کرے، کیونکہ فوجی طاقت سے دہشت گردی ختم نہیں کی جا سکتی‘۔

امریکی سربراہ نے یہ بات بدھ کے روز اخبار ’لاس انجلیس ٹائمز‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہی ہے، جس کے بعد اُنھوں نے واشنگٹن میں انسداد دہشت گردی سے متعلق بین الاقوامی اجلاس سے خطاب کیا۔

مسٹر اوباما کے بقول،’ ہمیں پتا ہے کہ صرف فوجی طاقت کے ذریعے اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکتا‘۔

اُنھوں نے کہا کہ، ’اور، نہی سب دہشت گردوں کا پکڑا جانا اتنا آسان ہے، جو بے گناہ شہریوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ ساتھ ہی، ہمیں پُرتشدد انتہا پسندوں کا مقابلہ کرنا ہے، جن میں پروپیگنڈہ کرنے والے، بھرتی کرنے والے اور اُن کے سہولت کار شامل ہیں، جو خود، براہ راست دہشت گردی میں ملوث نہیں، لیکن وہ انتہاپسندی پر مائل کرتے ہیں، بھرتی کرتے ہیں اور دوسروں کو ایسا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔‘

یہ سربراہ اجلاس ایسے میں منعقد ہورہا ہے جب امریکہ اور اُس کے اتحادی عراق اور شام میں داعش کے شدت پسند گروہ تیزی سے اور خونخوار طریقے سے اپنے پیر پختہ کر رہا ہے، جنھوں نے حال ہی میں آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس اور ڈینمارک میں دہشت گرد حملے کیے ہیں۔

مسٹر اوباما نے کہا کہ ’داعش اور القاعدہ جیسے مہلک گروہ اُس غصے اور مایوسی کو ابھار کر ہمدردیاں سمیٹتے ہیں جو بے انصافی اور بدعنوانی کے نتیجے میں پروان چڑھ رہی ہیں؛ اور وہ (نوجوان) یہ دیکھتے ہیں کہ اُن کی زندگی میں بہتری آ ہی نہیں سکتی۔ دنیا کو چاہیئے کہ نوجوانوں کو بہتر مستقبل کا یقین دلائیں‘۔

تاہم، اوباما انتظامیہ محتاط ہے اور وہ اس ہفتے کے اجلاس کو صرف اسلامی انتہاپسندی تک محدود نہیں رکھنا چاہتی۔ لیکن، وہ تمام قسم کی انتہا پسندی کو اجاگر کرنا چاہتی ہے، جس حکمت عملی پر قدامت پسند، ریبپلیکن پارٹی کے ارکان تنقید کر رہے ہیں۔

اجلاس میں 60 ملکوں کے اہل کار شریک ہیں، جن کے ساتھ ساتھ امریکہ بھر سے روحانی پیشوا اور پولیس حکام بھی وائٹ ہاؤس کے سربراہ اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔

اِن میں روس کی ’فیڈرل سکیورٹی سروس‘ کے سربراہ، الیگزینڈر بوٹنیکوف بھی شامل ہیں۔