سائبر سکیورٹی خدشات، اوباما کا اطلاعات کے تبادلے پر زور

تقریب سے خطاب میں، صدر نے کہا ہے کہ یہ خطرات اب اندیشہ نہیں ایک حقیقت بن چکے ہیں، اور ہائی ٹیک انڈسٹری، دیگر اداروں اور انتظامیہ کو مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے، کیونکہ سائبر خطرات ’زیادہ مشکل، سنگین اور تباہ کُن‘ نوعیت اختیار کر چکے ہیں

صدر براک اوباما جمعے کے روز ایک انتظامی حکم نامے پر دستخط کیے، جس کا مقصد انٹرنیٹ اداروں اور تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے، تاکہ وہ سائبر سکیورٹی کے خطرات سے متعلق حکومت اور ایک دوسرے کے ساتھ اطلاعات کا مزید تبادلہ کریں۔


اس سلسلے میں، وائٹ ہاؤس کی سرپرستی میں کیلی فورنیا کی اسٹنفرڈ یونیورسٹی میں سائبرسکیورٹی اور صارفین کے تحفظ کے موضوع پر ایک اجلاس منعقد ہوا، جس میں مسٹر اوباما نے اس حکم نامے پر باضابطہ دستخط کیے۔

اس سربراہ اجلاس پر، وائٹ ہاؤس نے ایک حقائق نامہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام ایک ایسے اہم وقت کیا جارہا ہے جب سائبر سے متعلق خدشات ’زیادہ مشکل، سنگین اور تباہ کُن‘ نوعیت اختیار کر چکے ہیں۔


وائٹ ہاؤس نے بتایا ہے کہ اس انتظامی حکم نامے کا ایک خاکہ پیش کیا گیا ہے جس میں رازداری اور شہری حقوق کے تحفظ کے لیے اہم اقدام کرنا شامل ہے، جب کہ کوشش یہی رہے گی کہ حکومت اور نجی شعبے کے درمیان لاحق مشکلات دور کی جائیں۔

بیان کے مطابق، ملک کا زیادہ تر اہم زیریں ڈھانچہ اور آئندہ کے دیگر کئی قسم کے اہم اہداف وفاقی ملکیت کا معاملہ نہیں۔


اس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت ہر نجی نیٹ ورک کو سائبر سکیورٹی فراہم نہیں کرسکتی، نہی امریکی اِس بات کے خواہاں ہیں کہ وہ ایسا عمل کرے۔ اِسی لیے، نجی شعبہ ہمارے مجموعی قومی دفاعی نیٹ ورک میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

حکم نامے میں امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی ڈپارٹمنٹ کو احکامات دیے گئے ہیں کہ وہ ایک تنظیم کو مالی وسائل فراہم کرے، جو اطلاعات کے تبادلے کے حوالے سے رضاکارانہ معیار کا تعین کرے۔

اس اقدام سے قبل ہیکنگ کے بڑے واقعات ہو چکے ہیں، جن میں سونی پکچرز انٹرٹینمنٹ، انتھم ہیلتھ انشورنس، ٹارگٹ، ہوم ڈپو، اِی بے اور جے پی مورگن چیز شامل ہیں۔ خود امریکی حکومت کو بھی سائبر حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں وائٹ ہاؤس اور محکمہٴخارجہ کے ’اَن کلاسی فائیڈ کمپیوٹرز‘ پر حملے شامل ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ، امریکی سینٹرل کمانڈ کے ٹوئٹر اور یوٹیوب کے اکاؤنٹس، جن کی مدد سے عراق اور شام میں داعش کے شدت پسندوں کے خلاف جاری فوجی کارروائی کی نگرانی کی جاتی ہے۔

اِن میں سے ہیکنگ کےکچھ حملوں کا الزام روسی، چینی اور شمالی کوریا کے ہیکرز پر لگایا گیا ہے۔