امریکہ کے صدر براک اوباما نے امیگریشن اصلاحات کے لیے اپنے اختیارات استعمال کرنے کا دفاع کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا ہے کہ یہ نظام ایک طویل عرصے سے "ٹوٹ پھوٹ" چکا تھا۔
لاس ویگاس میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ منصب صدارت سنبھالنے کے بعد سے ہی وہ امیگریشن کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے پرعزم تھے اور ان کے بقول اب وہ اس بارے میں کچھ کر رہے ہیں۔
صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ان اقدامات کو کانگریس کی طرف سے مستقل کرنے کے لیے، کانگریس کے ساتھ کام کرنے کی کوششوں کو ترک نہیں کریں گے۔
صدر اوباما کا منصوبہ ہے کہ وہ امریکہ میں موجود تقریباً 50 لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو کام کرنے کی عارضی قانونی حیثیت اور ملک بدری کے خطرے سے نکالیں۔
اس کے نفاذ میں چھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ان کے بقول کانگریس کے پاس امیگریشن اصلاحات کو منظور کرنے کے لیے 512 دن تھے اور اب تک اس پر دستخط ہو کر یہ قانونی شکل بھی اختیار کر چکی ہوتیں۔
صدر کا کہنا تھا کہ " ہمارا امیگریشن کا (نظام) ایک عرصے سے شکستہ ہو چکا تھا، اور ہر کوئی یہ جانتا ہے۔۔۔ میں ہمت نہیں ہاروں گا۔ میں کانگریس کے ارکان کے ساتھ مل کر اصلاحات کو ایک حقیقت بنانے کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں۔"
صدر نے بار بار کانگریس کو امیگریشن بل منظور کرنے کا کہتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ "سیاست سے زیادہ توجہ کا حامل ہے" اور لاکھوں لوگوں کی ملک بدری "حقیقت پسندانہ نہیں۔"
صدر کی تقریر کے بارے میں بعض کا کہنا تھا کہ انھوں نے غیر قانونی تارکین وطن کے لیے کچھ زیادہ نہیں کیا جب کہ دیگر کا کہنا تھا کہ انھوں نے حد سے تجاوز کر لیا ہے۔ اس دوران لاس ویگاس ہائی اسکول کے باہر ایک مظاہرہ بھی ہوا جس میں لوگوں نے "اوباما کا مواخذہ" اور "کوئی استثنیٰ" جیسی تحریروں والے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔
قبل ازیں ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بوہنر کی طرف سے یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ اوباما کانگریس کو ایک طرح رکھتے ہوئے امیگریشن کے معاملے پر ایگزیکٹو اختیارات کا استعمال کر کے "صدارت کو نقصان" پہنچا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایوان نمائندگان میں ریپبلکنز اس معاملے پر "خاموش" نہیں رہیں اور اس یک طرفہ اقدام کے خلاف لڑیں گے۔