امریکی صدر اس معاہدے کو سراہتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ’’ہم جھگڑے کے نا ختم ہونے والے سلسلے میں‘‘ نہیں پھنسنا چاہتے۔ انھوں نے مسائل کے حل کے لیے مسلسل سفارت کاری کی کوششوں پر زور دیا
امریکہ کے صدر براک اوباما نے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق عالمی طاقتوں اور تہران کے درمیان طے پانے والے معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سکیورٹی کے لیے ’’درست چیز‘‘ ہے۔
اسرائیل کے عہدیدار اور کانگریس کے بعض اراکین اس معاہدے پر تنقید کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ تہران پر تعزیرات میں نرمی سے ایران کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو جاری رکھ سکے۔
صدر اوباما نے لاس اینجلیس میں کہا کہ اس معاہدے کے باوجود ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے تمام ’آپشنز‘ موجود ہیں۔
اس سے قبل سان فرانسسکو میں بھی امریکی صدر اس معاہدے کو سراہتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ’’ہم جھگڑے کے نا ختم ہونے والے سلسلے میں‘‘ نہیں پھنسنا چاہتے۔ انھوں نے مسائل کے حل کے لیے مسلسل سفارت کاری کی کوششوں پر زور دیا۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو آئندہ دنوں میں اپنے ملک کی نیشنل سکیورٹی کی ایک ٹیم واشنگٹن بھیجیں گے جو ایران کے متنازع جوہری پروگرام کے مستقل حل کے سلسلے میں اوباما انتظامیہ سے بات چیت کرے گی۔
نیتن یاہو نے اتوار کو جنیوا میں طے پانے والے عبوری معاہدے کو ’’تاریخی غلطی‘‘ قرار دیا تھا۔
معاہدے کے تحت ایران کو اپنے جوہری پروگرام کو محدود یا اس کے کچھ حصے کو منجمد کرنا ہوگا جب کہ آئندہ چھ ماہ میں بین الاقوامی معائنہ کاروں کو بھی ملک میں آنے کے اجازت دینا ہو گی۔
اس کے بدلے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے علاوہ جرمنی ایران پر عائد بعض اقتصادی تعزیرات میں نرمی کریں گے۔
عالمی طاقتوں کا کہنا ہے کہ یہ نرمی اُن اہداف سے مشروط ہے جن پر معاہدے میں اتفاق کیا گیا ہے اور ایران کی طرف سے عمل درآمد میں ناکامی کی صورت میں یہ رعایت واپس لی جا سکے گی۔
اسرائیل جوہری صلاحیت والے ایران کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرات تصور کرتا ہے جس کہ وہ ایران کی طرف سے اسرائیل کو تباہ کرنے کی متواتر دھمکیاں ہیں۔
اسرائیل کے عہدیدار اور کانگریس کے بعض اراکین اس معاہدے پر تنقید کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ تہران پر تعزیرات میں نرمی سے ایران کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو جاری رکھ سکے۔
صدر اوباما نے لاس اینجلیس میں کہا کہ اس معاہدے کے باوجود ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے تمام ’آپشنز‘ موجود ہیں۔
اس سے قبل سان فرانسسکو میں بھی امریکی صدر اس معاہدے کو سراہتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ’’ہم جھگڑے کے نا ختم ہونے والے سلسلے میں‘‘ نہیں پھنسنا چاہتے۔ انھوں نے مسائل کے حل کے لیے مسلسل سفارت کاری کی کوششوں پر زور دیا۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو آئندہ دنوں میں اپنے ملک کی نیشنل سکیورٹی کی ایک ٹیم واشنگٹن بھیجیں گے جو ایران کے متنازع جوہری پروگرام کے مستقل حل کے سلسلے میں اوباما انتظامیہ سے بات چیت کرے گی۔
نیتن یاہو نے اتوار کو جنیوا میں طے پانے والے عبوری معاہدے کو ’’تاریخی غلطی‘‘ قرار دیا تھا۔
معاہدے کے تحت ایران کو اپنے جوہری پروگرام کو محدود یا اس کے کچھ حصے کو منجمد کرنا ہوگا جب کہ آئندہ چھ ماہ میں بین الاقوامی معائنہ کاروں کو بھی ملک میں آنے کے اجازت دینا ہو گی۔
اس کے بدلے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے علاوہ جرمنی ایران پر عائد بعض اقتصادی تعزیرات میں نرمی کریں گے۔
عالمی طاقتوں کا کہنا ہے کہ یہ نرمی اُن اہداف سے مشروط ہے جن پر معاہدے میں اتفاق کیا گیا ہے اور ایران کی طرف سے عمل درآمد میں ناکامی کی صورت میں یہ رعایت واپس لی جا سکے گی۔
اسرائیل جوہری صلاحیت والے ایران کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرات تصور کرتا ہے جس کہ وہ ایران کی طرف سے اسرائیل کو تباہ کرنے کی متواتر دھمکیاں ہیں۔