’ ایوانِ نمائندگان میں ریپبلیکن پارٹی کےلیڈر اور اسپکیر جان بینر نے جو منصوبہ پیش کیا ہے اُس سے ملک کے بڑھتے ہوئے قرض کے بوجھ میں کمی لانے کے لیے درکار رقوم فراہم نہیں ہوتیں‘
واشنگٹن —
امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ پہلی جنوری سے مالی بحران سے بچنےکی خاطر ریپبلیکن ارکان کی طرف سے پیش کردہ منصوبہ ’اب بھی غیر متوازن ہے‘ کیونکہ اِس میں امیر ترین افراد کےٹیکس کی شرح میں اضافہ نہیں کیا گیا۔
حال ہی میں ٕدوسری میعاد کے لیے منتخب ہونے والے ڈیموکریٹک پارٹی سےتعلق رکھنے والے صدر نے منگل کو بلومبرگ ٹیلی ویژن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ایوانِ نمائندگان میں ریپبلیکن پارٹی کے لیڈر اور اسپکیر جان بینر نے جو منصوبہ پیش کیا ہے اُس سے ملک کے بڑھتے ہوئے قرض کے بوجھ میں کمی لانے کے لیے درکار رقوم حاصل نہیں ہوتیں۔
صدر کے بقول، ’یہ ایک حساب کا سوال ہے‘۔
مسٹر اوباما نےایک بار پھر کہا کہ ایسے جوڑے جو ایک سال کے دوران ڈھائی لاکھ ڈالر کماتے ہیں اُنھیں ٹیکس میں چھوٹ نہیں دی جانی چاہئیے، جب کہ اِس سےکم آمدن کی صورت میں ٹیکس میں چھوٹ دی جائے۔
بینر اور دیگر ریپبلیکنز چاہتے ہیں کہ ہر ایک کو ٹیکس میں چھوٹ دی جائے، جِس میں دو فی صد امیر ترین افراد بھی شامل ہیں، اور آمدن میں اضافے کے لیے ٹیکس میں دی جانے والی کٹوتیوں میں کمی لائی جائے یا اِنھیں واپس لیا جائے۔
امریکہ کو ’فسکل کِلف‘ کی دشواری کا سامنا ہے، اور اخراجات میں 600ارب ڈالر کی کمی اور ٹیکس میں اضافہ لانے سے تمام امریکی کارکنوں پر اثرپڑے گا، جِس کا اطلاق سالِ نو کے پہلے روز سے ہوگا۔
مسٹر اوباما نےتجویز کیا کہ آئندہ دہائی کے دوران1.6ٹرلین ڈالر کی مالیت کے نئے ٹیکس لگائے جائیں، جب کہ کانگریس میں اُن کے ریپبلیکن مخالفین ٹیکس میں 800ارب ڈالر کے اضافے کی پیشکش کررہے ہیں۔
لیکن، بحران کےطویل مدتی حل کے لیے وائٹ ہاؤس اور ریپبلیکن قائدین اب تک کسی سمجھوتے پر نہیں پہنچ پائے، اور پبلک میں ایک دوسرے کے منصوبوں کو مسترد کیا ہے۔ لیکن درِ پردہ، اُن کے مشیر وقفے وقفےسے مذاکرات کرتے رہتے ہیں۔
کچھ مالی تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ مسٹر اوباما اور کانگریس سال کے آخر تک کسی سمجھوتے تک نہیں پہنچ پائیں گے، جس کے باعث تین سال کے اندر اندر ملک ایک بار پھر کساد بازاری کا شکار ہوجائے گا۔ لیکن، پیٹرک سوکی نے، جو نیو یارک کی ہفسٹرا یونیورسٹی میں بزنس اسکول کے ڈین ہیں، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صدر اور اُن کے سیاسی مخالفین ایک معقول سمجھوتے تک پہنچ جائیں گے۔
لیکن، قومی حکومت کےمتنازعہ اخراجات اورٹیکس معاملات کو حل کرنے کی غرض سے، اِس سے قبل آج ہی کے دِن مسٹر اوباما نے ایوان میں دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ریاستی گورنروں کے ایک وفد سے ملاقات کی۔ امریکہ میں ریاستوں کو وفاق سےکثیر امداد ملتی ہے اور گورنر اِس بات کا جواب مانگ رہے تھے کہ واشنگٹن میں تعطل جاری رہا تو اِس کے باعث اُن پر کیا اثرات پڑیں گے۔
حال ہی میں ٕدوسری میعاد کے لیے منتخب ہونے والے ڈیموکریٹک پارٹی سےتعلق رکھنے والے صدر نے منگل کو بلومبرگ ٹیلی ویژن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ایوانِ نمائندگان میں ریپبلیکن پارٹی کے لیڈر اور اسپکیر جان بینر نے جو منصوبہ پیش کیا ہے اُس سے ملک کے بڑھتے ہوئے قرض کے بوجھ میں کمی لانے کے لیے درکار رقوم حاصل نہیں ہوتیں۔
صدر کے بقول، ’یہ ایک حساب کا سوال ہے‘۔
مسٹر اوباما نےایک بار پھر کہا کہ ایسے جوڑے جو ایک سال کے دوران ڈھائی لاکھ ڈالر کماتے ہیں اُنھیں ٹیکس میں چھوٹ نہیں دی جانی چاہئیے، جب کہ اِس سےکم آمدن کی صورت میں ٹیکس میں چھوٹ دی جائے۔
بینر اور دیگر ریپبلیکنز چاہتے ہیں کہ ہر ایک کو ٹیکس میں چھوٹ دی جائے، جِس میں دو فی صد امیر ترین افراد بھی شامل ہیں، اور آمدن میں اضافے کے لیے ٹیکس میں دی جانے والی کٹوتیوں میں کمی لائی جائے یا اِنھیں واپس لیا جائے۔
امریکہ کو ’فسکل کِلف‘ کی دشواری کا سامنا ہے، اور اخراجات میں 600ارب ڈالر کی کمی اور ٹیکس میں اضافہ لانے سے تمام امریکی کارکنوں پر اثرپڑے گا، جِس کا اطلاق سالِ نو کے پہلے روز سے ہوگا۔
مسٹر اوباما نےتجویز کیا کہ آئندہ دہائی کے دوران1.6ٹرلین ڈالر کی مالیت کے نئے ٹیکس لگائے جائیں، جب کہ کانگریس میں اُن کے ریپبلیکن مخالفین ٹیکس میں 800ارب ڈالر کے اضافے کی پیشکش کررہے ہیں۔
لیکن، بحران کےطویل مدتی حل کے لیے وائٹ ہاؤس اور ریپبلیکن قائدین اب تک کسی سمجھوتے پر نہیں پہنچ پائے، اور پبلک میں ایک دوسرے کے منصوبوں کو مسترد کیا ہے۔ لیکن درِ پردہ، اُن کے مشیر وقفے وقفےسے مذاکرات کرتے رہتے ہیں۔
کچھ مالی تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ مسٹر اوباما اور کانگریس سال کے آخر تک کسی سمجھوتے تک نہیں پہنچ پائیں گے، جس کے باعث تین سال کے اندر اندر ملک ایک بار پھر کساد بازاری کا شکار ہوجائے گا۔ لیکن، پیٹرک سوکی نے، جو نیو یارک کی ہفسٹرا یونیورسٹی میں بزنس اسکول کے ڈین ہیں، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صدر اور اُن کے سیاسی مخالفین ایک معقول سمجھوتے تک پہنچ جائیں گے۔
لیکن، قومی حکومت کےمتنازعہ اخراجات اورٹیکس معاملات کو حل کرنے کی غرض سے، اِس سے قبل آج ہی کے دِن مسٹر اوباما نے ایوان میں دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ریاستی گورنروں کے ایک وفد سے ملاقات کی۔ امریکہ میں ریاستوں کو وفاق سےکثیر امداد ملتی ہے اور گورنر اِس بات کا جواب مانگ رہے تھے کہ واشنگٹن میں تعطل جاری رہا تو اِس کے باعث اُن پر کیا اثرات پڑیں گے۔