واشنگٹن —
امریکی صدر براک اوباما جمعرات کو اپنے سابق ریپبلیکن امیدوار مِٹ رومنی کو دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا ہے۔ اس ماہ کے آغاز میں جب مسٹر اوباما نے میساچیوسٹس کے سابق گورنر کو شکست دے کر دوبارہ انتخاب جیتا، یہ اُن کی پہلی تفصیلی ملاقات ہوگی۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ یہ ایک نجی دعوت ہوگی جِس میں میڈیا کو نہیں بلایا گیا۔
ملاقات کے دوران ایک ممکنہ موضوع جِس پر گفتگو ہوگی ’فِسکل کلف‘ ہے، جو مالی مشکل اس سال کےآخر میں درپیش آسکتی ہے اگر مسٹر اوباما اور کانگریس کلیدی حکومتی اخراجات اور ٹیکس کےمعاملات پر کسی سمجھوتے تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں۔
انتخابات کے بعد 14نومبر کو اپنی پہلی اخباری کانفرنس میں مسٹر اوباما نے کہا تھا کہ وہ رومنی سے بات کرنے کے خواہشمند ہیں، تاکہ اُن کے خیالات جان سکیں اور یہ معلوم کر سکیں کہ دونوں کس طرح مل کر کام کر سکتے ہیں۔
مسٹر اوباما نے 2002ء میں مسٹر رومنی کی طرف سے ریاست یوٹا کے شہر سالٹ لیک سٹی میں اولمپک منعقد کرانے کے سلسلے میں کیےگئے کام کو سراہا۔
چھ نومبر کو صدارتی انتخاب ہارنے کے بعدسے رومنی نے مفاہمت کا کم ہی مظاہرہ کیا ہے۔
صدارتی مہم کے دوران چندہ دینے والوں سےٹیلیفون گفتگو کرتے ہوئے ریپبلیکن پارٹی کے چیلنجر نے کہا تھا کہ اُنھوں نے انتخاب اس لیے ہارا کیونکہ مسٹر اوباما نے حکومت کی طرف سے اپنے ووٹروں کے بڑے گروہوں کو ’مالی تحائف‘ پیش کیے، جِن میں افریقی امریکی، ہسپانوی اور نوجوان شامل ہیں۔
چھ نومبر کو ووٹ دے کر پولنگ اسٹیشنوں سے جانے والوں سے بات چیت پر مبنی ایک جائزہ رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ سیاہ فام، ہسپانوی، ایشیائی اور نوجوان افراد نے مسٹر اوباما کو بڑھ چڑھ کر ووٹ دیے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ یہ ایک نجی دعوت ہوگی جِس میں میڈیا کو نہیں بلایا گیا۔
ملاقات کے دوران ایک ممکنہ موضوع جِس پر گفتگو ہوگی ’فِسکل کلف‘ ہے، جو مالی مشکل اس سال کےآخر میں درپیش آسکتی ہے اگر مسٹر اوباما اور کانگریس کلیدی حکومتی اخراجات اور ٹیکس کےمعاملات پر کسی سمجھوتے تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں۔
انتخابات کے بعد 14نومبر کو اپنی پہلی اخباری کانفرنس میں مسٹر اوباما نے کہا تھا کہ وہ رومنی سے بات کرنے کے خواہشمند ہیں، تاکہ اُن کے خیالات جان سکیں اور یہ معلوم کر سکیں کہ دونوں کس طرح مل کر کام کر سکتے ہیں۔
مسٹر اوباما نے 2002ء میں مسٹر رومنی کی طرف سے ریاست یوٹا کے شہر سالٹ لیک سٹی میں اولمپک منعقد کرانے کے سلسلے میں کیےگئے کام کو سراہا۔
چھ نومبر کو صدارتی انتخاب ہارنے کے بعدسے رومنی نے مفاہمت کا کم ہی مظاہرہ کیا ہے۔
صدارتی مہم کے دوران چندہ دینے والوں سےٹیلیفون گفتگو کرتے ہوئے ریپبلیکن پارٹی کے چیلنجر نے کہا تھا کہ اُنھوں نے انتخاب اس لیے ہارا کیونکہ مسٹر اوباما نے حکومت کی طرف سے اپنے ووٹروں کے بڑے گروہوں کو ’مالی تحائف‘ پیش کیے، جِن میں افریقی امریکی، ہسپانوی اور نوجوان شامل ہیں۔
چھ نومبر کو ووٹ دے کر پولنگ اسٹیشنوں سے جانے والوں سے بات چیت پر مبنی ایک جائزہ رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ سیاہ فام، ہسپانوی، ایشیائی اور نوجوان افراد نے مسٹر اوباما کو بڑھ چڑھ کر ووٹ دیے۔