امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اس عبوری معاہدے سے وقت کے علاوہ یہ جاننے کا موقع ملے گا کہ آیا ایران مستقل اور جامع معاہدے کی سمت کس حد تک بڑھ رہا ہے اور یہ’’ معاہدہ ہمیں وہ یقین دہانی کروائے گا کہ وہ (ایران) جوہری ہتھیار تیار نہیں کر رہا‘‘۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری پروگرام پر حتمی معاہدے کے امکانات ان کی نظر میں ’’ففٹی۔ ففٹی‘‘ یا اس سے بھی کم ہیں۔ لیکن ان کے بقول حالیہ عبوری معاہدہ ایران کو آئندہ چھ ماہ کے لیے اپنے جوہری پروگرام پر پیش رفت سے روکے گا۔
ہفتہ کو سابان فورم سے خطاب میں صدر نے کہا کہ ’’ اس صورتحال کے سفارتی حل سے ہم جو کچھ حاصل کرسکتے ہیں وہ بلاشبہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو اس متعلق ہمیں دستیاب دیگر آپشنز سے حاصل کیا جاسکتا تھا۔‘‘
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اس عبوری معاہدے سے وقت کے علاوہ یہ جاننے کا موقع ملے گا کہ آیا ایران مستقل اور جامع معاہدے کی سمت کس حد تک بڑھ رہا ہے اور یہ’’ معاہدہ ہمیں وہ یقین دہانی کروائے گا کہ وہ (ایران) جوہری ہتھیار تیار نہیں کر رہا‘‘۔
اسرائیل کے وزیراعظم اس عبوری معاہدے کو یہ کہہ کر تنقید کر نشانہ بناتے آئے ہیں کہ یہ ’’ایران کے لیے بہت آرام دہ ہے‘‘۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ امریکہ ہمیشہ اسرائیل کی حفاظت کرے گا۔ ’’ ہم خطے میں اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے لیے کوئی خطرہ مول نہیں لیں گے اور ہم یہ پوری طرح واضح کر چکے ہیں۔ اسرائیل کی سلامتی سے متعلق ہمارا عزم مقدم ہے اور وہ اسے سمجھتے ہیں۔‘‘
اسی فورم میں امریکی وزیرخارجہ جان کیری کا کہنا تھا کہ ایران کے جوہری تنازع کا بہترین حل سفارتکاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’میں کسی بھی شک و شبے کے بغیر اس کا قائل ہوچکا ہوں کہ معاہدے کے نافذ ہونے ہوتے ہی اسرائیل پہلے سے زیادہ محفوظ ہوگیا ہے۔‘‘
کیری نے حال ہی میں نیتن یاہو اور فلسطینی صدر محمود عباس سے بات چیت کی ہے جس میں انھوں نے مشرق وسطیٰ میں امن معاہدے کے لیے امریکی معاونت کا عزم دہرایا۔
ہفتہ کو سابان فورم سے خطاب میں صدر نے کہا کہ ’’ اس صورتحال کے سفارتی حل سے ہم جو کچھ حاصل کرسکتے ہیں وہ بلاشبہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو اس متعلق ہمیں دستیاب دیگر آپشنز سے حاصل کیا جاسکتا تھا۔‘‘
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اس عبوری معاہدے سے وقت کے علاوہ یہ جاننے کا موقع ملے گا کہ آیا ایران مستقل اور جامع معاہدے کی سمت کس حد تک بڑھ رہا ہے اور یہ’’ معاہدہ ہمیں وہ یقین دہانی کروائے گا کہ وہ (ایران) جوہری ہتھیار تیار نہیں کر رہا‘‘۔
اسرائیل کے وزیراعظم اس عبوری معاہدے کو یہ کہہ کر تنقید کر نشانہ بناتے آئے ہیں کہ یہ ’’ایران کے لیے بہت آرام دہ ہے‘‘۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ امریکہ ہمیشہ اسرائیل کی حفاظت کرے گا۔ ’’ ہم خطے میں اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے لیے کوئی خطرہ مول نہیں لیں گے اور ہم یہ پوری طرح واضح کر چکے ہیں۔ اسرائیل کی سلامتی سے متعلق ہمارا عزم مقدم ہے اور وہ اسے سمجھتے ہیں۔‘‘
اسی فورم میں امریکی وزیرخارجہ جان کیری کا کہنا تھا کہ ایران کے جوہری تنازع کا بہترین حل سفارتکاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’میں کسی بھی شک و شبے کے بغیر اس کا قائل ہوچکا ہوں کہ معاہدے کے نافذ ہونے ہوتے ہی اسرائیل پہلے سے زیادہ محفوظ ہوگیا ہے۔‘‘
کیری نے حال ہی میں نیتن یاہو اور فلسطینی صدر محمود عباس سے بات چیت کی ہے جس میں انھوں نے مشرق وسطیٰ میں امن معاہدے کے لیے امریکی معاونت کا عزم دہرایا۔