واشنگٹن —
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری اور یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے شام اور ایران کی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
بدھ کو برسلز میں واقع 'نیٹو ہیڈکوارٹرز' میں ہونے والی اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے شام کے بحران کے حل کے لیے بلائی جانے والی مجوزہ امن کانفرنس کی تیاریوں اور ایران کے جوہری پروگرام پر گزشتہ ماہ طے پانے والے معاہدے کی بعد کی صورتِ حال پر گفتگو کی۔
آئندہ ماہ جنیوا میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کا مقصد شام میں متحارب فریقوں کو گزشتہ ڈھائی برسوں سے جاری خانہ جنگی کا سیاسی حل تلاش کرنے پر آمادہ کرنا ہے۔
شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور مسلح باغیوں کے مرکزی اتحاد کے رہنما کانفرنس میں شرکت کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں جس کے بعد کانفرنس کے انعقاد کے لیے کوشاں عالمی طاقتوں کے سفارت کاروں کو اب دیگر شرکا کے انتخاب کا مشکل مرحلہ درپیش ہے۔
صدر بشار الاسد کی خواہش ہے کہ ایران کو بھی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جائے جو خطے میں ان کی حکومت کا سب سے بڑا اتحادی ہے۔ ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف بھی مدعو کیے جانے کی صورت میں کانفرنس میں شرکت کا عندیہ دے چکے ہیں۔
لیکن کانفرنس کے منتظمین میں شامل امریکہ اور یورپی یونین کا اصرار ہے کہ ایران کو پہلے کانفرنس کے بنیادی اغراض و مقاصد سے اتفاق کرنا ہوگا جن میں سرِ فہرست ایک ایسی بااختیار عبوری حکومت کے قیام پر فریقین کو راضی کرنا ہے جو اسد حکومت کی جگہ سنبھالے گی۔
ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی طاقتوں اور تہران حکومت کے درمیان گزشتہ ماہ طے پانے والے تاریخی معاہدے کے بعد کانفرنس میں ایران کی شرکت کی مخالفت میں کمی آئی ہے اور امکان ہے کہ اسد حکومت کے اہم ترین اتحادی کی حیثیت سے ایران کو اس اجلاس میں مدعو کرلیا جائے گا۔
بدھ کو ہونے والی اپنی ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ نے ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدہ ممکن بنانے کے لیے کوششیں کرنے پر کیتھرین ایشٹن کا بطورِ خاص شکریہ ادا کیا۔
خیال رہے کہ ایشٹن چھ عالمی طاقتوں – امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین اور جرمنی - کی مشترکہ نمائندہ ٔ خصوصی کی حیثیت سے ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کرتی رہی ہیں۔
اس معاہدے کے تحت ایران اور عالمی طاقتوں نے تہران حکومت کے جوہری پروگرام پر حتمی معاہدے کے لیے چھ ماہ کا وقت مقرر کیا ہے جس کے دوران میں ایران پر سے بعض پابندیاں نرم کی جائیں گی جس کے جواب میں ایرانی حکومت یورینیم کی اعلیٰ سطح پر افزودگی روک دے گی۔
صحافیوں سے گفتگو میں کیتھرین ایشٹن نےکہا کہ امریکہ اور یورپی یونین مشترکہ اقدار کےحامل ہیں اور کئی مسائل اور معاملات پر مل کر کام کرتے رہے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال، ان کے بقول، ایران کا جوہری پروگرام ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام کے مستقبل کے تعین کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے جس کے لیے فریقین کو کھلے دل سے مذاکرات کو آگے بڑھانا چاہیے۔
بدھ کو برسلز میں واقع 'نیٹو ہیڈکوارٹرز' میں ہونے والی اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے شام کے بحران کے حل کے لیے بلائی جانے والی مجوزہ امن کانفرنس کی تیاریوں اور ایران کے جوہری پروگرام پر گزشتہ ماہ طے پانے والے معاہدے کی بعد کی صورتِ حال پر گفتگو کی۔
آئندہ ماہ جنیوا میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کا مقصد شام میں متحارب فریقوں کو گزشتہ ڈھائی برسوں سے جاری خانہ جنگی کا سیاسی حل تلاش کرنے پر آمادہ کرنا ہے۔
شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور مسلح باغیوں کے مرکزی اتحاد کے رہنما کانفرنس میں شرکت کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں جس کے بعد کانفرنس کے انعقاد کے لیے کوشاں عالمی طاقتوں کے سفارت کاروں کو اب دیگر شرکا کے انتخاب کا مشکل مرحلہ درپیش ہے۔
صدر بشار الاسد کی خواہش ہے کہ ایران کو بھی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جائے جو خطے میں ان کی حکومت کا سب سے بڑا اتحادی ہے۔ ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف بھی مدعو کیے جانے کی صورت میں کانفرنس میں شرکت کا عندیہ دے چکے ہیں۔
لیکن کانفرنس کے منتظمین میں شامل امریکہ اور یورپی یونین کا اصرار ہے کہ ایران کو پہلے کانفرنس کے بنیادی اغراض و مقاصد سے اتفاق کرنا ہوگا جن میں سرِ فہرست ایک ایسی بااختیار عبوری حکومت کے قیام پر فریقین کو راضی کرنا ہے جو اسد حکومت کی جگہ سنبھالے گی۔
ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی طاقتوں اور تہران حکومت کے درمیان گزشتہ ماہ طے پانے والے تاریخی معاہدے کے بعد کانفرنس میں ایران کی شرکت کی مخالفت میں کمی آئی ہے اور امکان ہے کہ اسد حکومت کے اہم ترین اتحادی کی حیثیت سے ایران کو اس اجلاس میں مدعو کرلیا جائے گا۔
بدھ کو ہونے والی اپنی ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ نے ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدہ ممکن بنانے کے لیے کوششیں کرنے پر کیتھرین ایشٹن کا بطورِ خاص شکریہ ادا کیا۔
خیال رہے کہ ایشٹن چھ عالمی طاقتوں – امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین اور جرمنی - کی مشترکہ نمائندہ ٔ خصوصی کی حیثیت سے ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کرتی رہی ہیں۔
اس معاہدے کے تحت ایران اور عالمی طاقتوں نے تہران حکومت کے جوہری پروگرام پر حتمی معاہدے کے لیے چھ ماہ کا وقت مقرر کیا ہے جس کے دوران میں ایران پر سے بعض پابندیاں نرم کی جائیں گی جس کے جواب میں ایرانی حکومت یورینیم کی اعلیٰ سطح پر افزودگی روک دے گی۔
صحافیوں سے گفتگو میں کیتھرین ایشٹن نےکہا کہ امریکہ اور یورپی یونین مشترکہ اقدار کےحامل ہیں اور کئی مسائل اور معاملات پر مل کر کام کرتے رہے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال، ان کے بقول، ایران کا جوہری پروگرام ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام کے مستقبل کے تعین کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے جس کے لیے فریقین کو کھلے دل سے مذاکرات کو آگے بڑھانا چاہیے۔