مصروف دِن گزارنے کے بعد، صدر اوباما کی ہفتے کو ہوائی آمد

گذشتہ برس کی کامیابیوں کا خاکہ پیش کرتے ہوئے، جمعے کو اپنے کلمات میں اُنھوں نے کہا کہ اُن کی انتظامیہ نے کئی ایک کامیابیاں حاصل کیں: 'ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتا طے ہوا؛اور عشروں کے بائیکاٹ اور عدم اعتماد کے بعد، کیوبا کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال ہوئے'

ہفتے کے روز صدر براک اوباما ہوائی پہنچے۔ کرسمس اور سالِ نو کی تعطلیات منانے کے لیے، اُنھوں نے جمعے کو واشنگٹن سے سفر کا آغاز کیا، جس سے قبل وائٹ ہائوس میں1.1 ٹریلین ڈالر مالیت کے وفاقی بجٹ کی قانون سازی پر دستخط کیے، جب کہ اُنھوں نے دیگر انتظامی اقدامات کیے۔ آئندہ برس اُن کی میعادِ صدارت کا آخری سال ہوگا۔

اوباما کی قیادت میں امریکی حکومت کا آٹھ سالہ دور جنوری 2017ء میں مکمل ہوگا، جب کہ اگلے سال انتخابات ہوں گے۔

جمعے کو وائٹ ہائوس سے سال کی آخری اخباری کانفریس سے خطاب کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ 2016ء کے دوران وہ خبروں سے اوجھل نہیں ہوں گے۔ برعکس اس کے، 'منظر پر رہ کر بہت سارا کام نمٹانا چاہتا ہوں'، یعنی اپنی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ اپنی حتی المقدور سعی کریں گے۔

کامیابیاں

گذشتہ برس کی کامیابیوں کا ایک خاکہ پیش کرتے ہوئے، اوباما نے کہا کہ اُن کی انتظامیہ نے کئی ایک کامیابیاں حاصل کیں: ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتا طے ہوا؛ عشروں کے بائیکاٹ اور عدم اعتماد کے بعد کیوبا کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال ہوئے۔

اُنھوں نے بین البحرالکاہل تجارتی ساجھے داری کے معاہدے کو بھی سراہا؛ موسمیاتی تبدیلی سےمتعلق تازہ ترین سمجھوتے کا ذکر کیا؛ ہم جنس پرستی پر امریکی عدالت عظمیٰ کا فیصلہ جس میں شادی کو جائز قرار دیا گیا اُس کا حوالہ دیا؛ اور کانگریس کے ساتھ سمجھوتا جس کے تحت بچوں کی تعلیم کے بارے میں وفاقی پروگراموں میں بنیادی اصلاحات کرنا شامل ہے، کی بات کی۔

ادھر امریکیوں کے بنیادی معاشی معاملات پر صدر کا کہنا تھا کہ اُن کی انتظامیہ کی پالیسیاں روزگار کے مواقع بحال کرنے، بے روزگاری کے رحجان کو توڑ نکالنے میں کامیاب ہوئی، جب کہ صدارت کا عہدہ سنبھالتے وقت ملک افراط زر اور کساد بازاری کے بھنور میں پھنسا ہوا تھا۔

اُنھوں نے اس بات پر بھی دھیان مبذول کرایا کہ اِس سال تقریباً 60 لاکھ افراد نے صحت کے انشورنس کی سہولت حاصل کی۔

درپیش چیلنج

اوباما نے کہا کہ آئندہ برس کے سب سے بڑے مسائل داعش کے انتہا پسندوں سے درپیش ہوسکتے ہیں، جنھوں نے اپنا دائرہ اثر عراق اور شام سے باہر پھیلا دیا ہے، اور اب یہ گروہ مغربی ملکوں کے لیے خطرے کا باعث بننے لگا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ امریکی حکام اپنے بس میں ہر قدم اٹھا رہے ہیں، تاکہ، کسی (لون ولف) 'سر پھرے' اکیلے وار کرنے والے دہشت گرد حملوں کے امکان کو ناکام بنایا جائے۔۔ اس کی مثال اس ماہ کیلی فورنیا کے شہر سان برنارڈینو کے حملے کی صورت میں سامنے آئی، جس میں داعش کے تشدد کے پیغامات کی وکالت کرنے والے ایک جوان سال مذہبی جوڑے نے 14 افراد کو ہلاک کیا۔

صدر نے کہا کہ لوگوں کو چوکنہ رہنا ہوگا ایسے میں جب حکومت داعش کی شدت پسندوں کے خلاف تشکیل دینے گئے بین الاقوامی اتحاد کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔

صدر اوباما کے بقول، 'ہم شام اور عراق میں داعش کے مراکز کو اتنا کمزور کر دیں گےکہ وہ اپنی دہشت گردی اور پروپیگنڈے کو باقی دنیا کی طرف بھیجنے کے قابل نہیں رہیں گے'۔

اُنھوں نے عہد کیا کہ 'ہم اُن (دہشت گردوں کو) شکست دے کر رہیں گے۔۔ اور ہم باقاعدہ پکڑ کر اُنھیں جنجھوڑیں گے، اُن کی مالی امداد کو روکیں گے، رسد روکیں گے، اُن کی قیادت اور لڑاکوں کو پکڑیں گے اور اُن کے زیریں ڈھانچے کو تباہ کردیں گے'۔