ایک بڑے امریکی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ صدر براک اوباما نے اپنے کچھ اہم قانونی مشیر وں کی یہ رائے مسترد کردی تھی کہ انہیں لیبیا پر فضائی حملوں میں شمولیت کے لیے کانگریس کی حمایت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
نیویارک ٹائمز نے اپنے جمعے کی اشاعت میں لکھاہے کہ محکمہ دفاع کے جنرل قونصل جے جانسن اور محکمہ انصاف کی لیگل کونسل آفس کی قائمقام سربراہ کیرولین کراس نے مسٹر اوباما کو یہ رائے دی تھی کہ انہیں اس کارروائی کے لیے کانگریس کی منظوری کی ضرورت ہوگی۔
اخبار نیویارک ٹائمز کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اعلیٰ حکومتی وکیل اٹارنی جانرل ایرک ہولڈر نے ان کی رائے سے اتفاق کیا تھا۔
ان کی بجائے مسٹر اوباما نے وہائٹ ہاؤس اور وزارت خارجہ کے دیگر قانونی ماہرین کی یہ تجویز قبول کرلی کہ انہیں بیرون ملک صدر معمرقذافی کے خلاف نیٹو کی زیر قیادت فضائی کارروائی میں شمولیت کے لیے کانگریس سے منظوری لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
اب قانونی سوال کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ آیا نیٹوکی کارروائیوں میں امریکی فورسز کی سرگرمیاں کس دائرے میں آتی ہیں۔
1973 کے وار پاور ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ جب ایک صدر جوملک کی افواج کا کمانڈر انچیف بھی ہوتا ہے، قوم کو کسی جنگ میں شریک کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے 60 روز کے اندر یا اس کارروائی میں امریکی کردار کے خاتمے کے 90 دنوں کے اندراندر لازمی طورپر کانگریس سے اس کی منظوری حاصل کرنا ہوگی۔
لیبیا کے خلاف جنگی کارروائیوں کے سلسلے میں امریکہ اتوار کے روز 90 روزہ مدت کے نشان کو پہنچ جائے گا۔
لیبیا کے خلاف جنگ میں امریکہ کی شمولت پرامریکی کاانگریس کے کچھ راہنماں کی، جن میں ایوان نمائندگان میں ری پبلیکن پارٹی کے لیڈر جان بینر اور مسٹر اوباما کی ڈیموکریٹ پارٹی کے کچھ ارکان بھی شامل ہیں، تنقید میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ لیبیا پر زیادہ تر بمباری برطانیہ اورفرانس کے طیارے کررہے ہیں۔
جاان بنیر کا کہناہے کہ امریکہ لیبیا کے خلاف کارروائیوں پر روزانہ ایک کروڑ ڈالر خرچ کررہاہے اور یہ کہ جنگ کے اختیارات پر صدر اوباما کی تشریح معیار پر پوری نہیں اترتی۔