داعش سے نمٹنے کے لیے جاری کوششوں کے حوالے سے، امریکی صدر براک اوباما نے جمعرات کو سکیورٹی پر مامور اپنے اعلیٰ اہل کاروں سے ملاقات کی۔ وائٹ ہاؤس نے بتایا ہے کہ ایسے میں جب یہ انتہا پسند گروپ اپنے پَر اور اثر و رسوخ عراق اور شام کے باہر پھیلا رہا ہے، انسدادی کوششوں میں اہم پیش رفت حاصل ہوئی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جوش ارنیسٹ نے محکمہٴ خارجہ میں ہونے والی اِس ملاقات سے قبل بتایا کہ ’’کوئی شک نہیں کہ یہ کوششیں صحیح سمت میں آگے بڑھ رہی ہیں‘‘۔
اِس موقعے پر اوباما نے وائٹ ہاؤس، محکمہٴ خارجہ، انٹیلی جنس برادری، محکمہٴ دفاع اور محکمہٴ خزانہ کے سینئر حکام سے ملاقات کی۔ یہ اجلاس داعش سے نبردآزما ہونے کے لیے کثیر جہتی امریکی مہم کا ایک حصہ تھا، جس دوران تازہ ترین صورت حال پر نظر ڈالی گئی۔
ارنیسٹ نے بتایا کہ یہ بات چیت ’’وسیع تر امور‘‘ پر ہوگی، جب کہ اس میں سفارت کاری کے کردار پر دھیان مرکوز رہے گا، تاکہ شام کی خانہ جنگی کو روکنے کے لیے نئی اور جزوی جنگ بندی کی کامیابی کو یقینی بنایا جائے۔ اس معاہدہ پر ہفتے کے روز سے عمل درآمد ہوگا۔
اوباما اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے یہ معاہدہ اس ہفتے کے اوائل میں طے کیا۔ لیکن، اس سے متعلق شدید تشویش پائی جاتی ہے آیا یہ دیرپہ ثابت ہوگا اور امن مذاکرات کی راہ ہموار کرنے میں مدد دے سکے گا، جس کا مقصد پانچ برس کے تنازعے کو ختم کرنا ہے جو شامی صدر بشارالاسد کی حمایت کرنے والی سرکاری فوجوں اور باغی گروپوں کے درمیان جاری ہے، جو اسد کو ہٹانے کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس ترجمان نے کہا ہے کہ ’’جنگ بندی کے حصول کے لیے سفارتی سطح پر بہت کام کرنا پڑا‘‘۔
بقول اُن کے، ’’اس پر کامیابی سے عمل درآمد کرانے کے لیے کافی کام کرنے کی ضرورت ہوگی، اگر یہ کامیابی سے ہم کنار ہوتا ہے‘‘۔
عراق اور شام میں شدت پسند گروپ کے اصل عناصر کا شکنجہ کسنے کی کوششوں کے حوالے سے صدر اوباما نے فوجی مشیروں اور محکمہٴ خزانہ کے اہل کاروں سے تفصیل سنی۔
اوباما کو اس بارے میں بھی بریفنگ دی گئی آیا دولت اسلامیہ کو ٹھکانے لگانے کی کوششیں کتنی بارآور ثابت ہوئی ہیں، جس شدت پسند گروہ کی کڑیاں سرحدوں سے آگے چلی گئی ہیں، جیسا کہ لیبیا، جہاں یہ گروہ سیاسی خلفشار کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
باوجود اِس کے، اوباما انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں کے دوران دولت اسلامیہ سے کافی علاقہ واگزار کرایا گیا ہے جب کہ رقعہ کے اُس کے صدر دفتر کے قریب تیز لڑائی جاری رہی ہے۔ ارنیسٹ کے کہا کہ اگر وہاں کامیابی ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں عراق میں داعش اور شام میں اسی دہشت گرد گروہ کے صدر دفتر کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے گا۔
اس سے قبل، جمعرات ہی کو، قانون سازوں نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے شام میں لڑائی کا خاتمہ لانے اور انسانی بنیادوں پر شام کے بحران سے نمٹنے کے لیے امریکہ کیا کوششیں کر رہا ہے۔ وہ ایوان کی امور خارجہ کمیٹی کی سماعت میں سوالات کے جواب دے رہے تھے۔
اُنھوں نے کہا کہ شام میں بے گناہ لوگوں کا ’قتل‘ اب بھی ہو رہا ہے، جہاں اسپتالوں اور اسکولوں پر بم برسائے گئے ہیں۔
کیری نے کہا کہ ’’یہ واقعات سرزد ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مخاصمانہ کارروائی کے خاتمے کے لیے ہم سخت کوششیں کر رہے ہیں‘‘۔