رسائی کے لنکس

امریکہ: انٹرنیٹ پر انتہا پسندی سے نمٹنے کی کوششیں


محکمہ داخلی سلامتی میں متشدد انتہا پسندی کے انسداد کے دفتر کے ڈائریکٹر جارج سیلم کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت انتہا پسندوں کی طرف سے انٹرنیٹ پر لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔

اسلامی انتہا پسندی سے متعلق پیغامات کے پھیلاؤ کو روکنے میں محدود کامیابی کو تسلیم کرتے ہوئے امریکی حکومت نجی ٹیکنالوجی کمپنیوں، مقامی تنظیموں اور تعلیمی گروپوں کی خدمات حاصل کر رہی ہے تاکہ انٹرنیٹ پر انتہا پسندی کو روکا جا سکے۔

اگرچہ ناقدین کا کہنا ہے کہ نئی حکمت عملی کے مؤثر ہونے کے بارے میں کوئی شواہد موجود نہیں مگر پھر بھی حکومت اپنی حکمت عملی تبدیل کر رہی ہے اور بدھ کو محکمہ انصاف نے سماجی رابطے کی کمپنیوں فیس بک انکورپوریٹڈ، ٹوئیٹر اور گوگل چلانے والی کمپنی الفابیٹ انکورپوریٹد کے نمائندوں سے ملاقات کی۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے انتہا پسندی سے متعلق پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر سیمس ہیوز نے اس اجلاس میں شرکت کے بعد کہا کہ اس میں تسلیم کیا گیا ہے کہ حکومت کے پاس انٹرنیٹ پر داعش کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مناسب حکمت عملی اور وسائل موجود نہیں۔

محکمہ داخلی سلامتی میں متشدد انتہا پسندی کے انسداد کے دفتر کے ڈائریکٹر جارج سیلم کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت انتہا پسندوں کی طرف سے انٹرنیٹ پر لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب ان کا ہدف ’’مقامی افراد اور نوجوانوں کو اپنے پیغامات پھیلانے‘‘ میں مدد دینا ہے۔

یہ پیغامات سکولوں اور مقامی تنظیموں میں جاری ’’متبادل بیانیہ‘‘ کہلانے والے ان پروگراموں سے نکلیں گے جنہیں حکومت کی طرف سے کسی نہ کسی طرح کی معاونت حاصل ہے۔

صدر براک اوباما کی انتظامیہ کی طرف سے ماضی میں عالمی سطح پر انتہا پسندی سے متعلق پروپیگنڈے کے انسداد کی کوششوں کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اس میں خوف پر مبنی بیان بازی اور تفصیلی تصویر کشی کا عنصر اتنا غالب تھا کہ وہ مؤثر ثابت نہیں ہو سکیں۔

مگر یہ واضح نہیں کہ نجی شعبے کے ساتھ نئی مشترکہ کوشش انتہا پسندی کے انسداد میں کامیاب ہو سکے گی یا نہیں۔

حالیہ سالوں میں اوباما انتظامیہ کے ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ساتھ تعلقات کچھ اتنے اچھے نہیں رہے۔ ٹوئیٹر اور دیگر ٹیک کمپنیاں اپنے مواد کو منظم کرنے کے متعلق حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات سے گریز کرتی رہی ہیں، اگرچہ ان میں سے اکثر نے پچھلے ایک سال کے دوران زیادہ تابعداری کا مظاہرہ کیا ہے۔

گزشتہ سال فیس بک نے ایک برطانوی تحقیقی ادارے ڈیموس کے ساتھ مل کر یورپی ممالک میں نفرت انگیز بیانات کے انسداد کے لیے ’’متبادل پیغامات‘‘ کے اثرات کا جائزہ لیا تھا۔

اکتوبر میں جاری ہونے والے مطالعے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ایسی کوششوں کے طویل المدت رویوں اور آف لائن رویوں پر اثرات کا ’’صحیح اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے۔‘‘

نئے پروگراموں میں سے ایک پروگرام P2P ہے جس کی معاونت فیس بک اور متعدد سرکاری اداروں نے کی ہے۔ اس کے تحت کالجوں میں طلبا کو شدت پسندی کے خلاف پیغامات تخلیق کرنے کی تعلیم دینے والے مضامین کی معاونت کی جاتی ہے۔

کویت گلف یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی ایک طالبہ فاطمہ یوسف طلبا کی طرف سے تخلیق کیے گئے ایسے متبادل پیغامات کی رونمائی کے متعلق فیس بک کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے واشنگٹن آئیں۔

تئیس سالہ فاطمہ نے ایک بلاگ دکھایا جس میں کویتی طلبا کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر متشدد انتہا پسندی کی مذمت کریں۔

ایسی ایک اور کوشش میری لینڈ میں قائم ایک مسلم تعلیمی تنظیم ’ورڈ‘ کر رہی ہے جس نے گزشتہ ہفتے ایک مہم شروع کی جس کا مقصد وڈیوز اور اسلام سے متعلق بات چیت کی براہ راست نشریات کے ذریعے داعش کے پیغامات کی نفی کرنا ہے۔

یہ تنظیم پیغامات کی نئی مہم کے اثرات چانچنے کے لیے سافٹ ویئر یا سروے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

نیو جرسی سے سینیٹر کوری بکر نے خبررساں ادارے روئیٹرز کو بتایا کہ وہ دو قوانین پر کام کر رہے ہیں جو محکمہ داخلی سلامتی کو اختیار دیں گے کہ کالجوں میں ایسے مضامین کی معاونت کرے جن میں اس بات پر تحقیق کی جائے کہ داعش کے پروپیگنڈے سے کیسے بہترین طریقے سے نمٹا جا سکتا ہے۔

تاہم کچھ افراد اور تنظیمیں سرکاری معاونت کے بغیر اپنے طور پر ایسی کوششیں کر رہے ہیں۔

ان میں ورجینیا کے امام محمد ماجد شامل ہیں جنہوں نے کئی ایسے نوجوانوں سے بات چیت کی ہے جنہیں داعش نے بھرتی کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ چندہ مہم کے ذریعے ایک اسلامی فاؤنڈیشن قائم کرنا چاہتے ہیں جو داعش کی ہر وڈیو کا جواب پرامن پیغامات کے ذریعے دے سکے۔

’’اگر ہم کہیں کہ یہ سرکاری کام ہے تو اس کو صحیح نہیں سمجھا جائے گا۔ ہم مسلم برادری کو للکار رہے ہیں کہ وہ خود اس چیلنج کا جواب دے۔‘‘

XS
SM
MD
LG