امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے فوجی اقدامات ، سیاسی اور مالی قدغنیں اور دوسرے قسم کے دباؤ کے نتیجےمیں، لیبیا کے لیڈرمعمر قذافی دست بردار ہوجائیں گے۔
امریکی نشریاتی نیٹ ورک این بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، مسٹر اوباما نے کہا کہ لیبیا میں فوجی مداخلت کے باعث مسٹر قذافی کی فوج کو ہزاروں لوگوں کوموت کے گھاٹ اتارنے سے روکا گیا ہے، اور یہ کہ، اُن کے بقول، مسٹر قذافی کی پیش قدمی روک دی گئی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ مسٹر قذافی کا لیبیا کے زیادہ تر رقبے پر کوئی کنٹرول نہیں ہے، اور بتایا کہ نیٹو اور اتحاد کے دوسرے ساجھے دار مسٹر قذافی پر کافی عرصے تک دباؤ جاری رکھنے میں کامیاب ہوں گے، جب تک ، اُن کے بقول، کوئی سیاسی حل سامنے نہیں آتا۔
مسٹر اوباما نے منگل کو بہت سے اہم خبر رساں اداروں کو انٹرویو دیے، جن میں سے یہ ایک ہے اور جس سے ایک روز قبل اُنھوں نے قوم سے خطاب کیا جس میں اُنھوں نے لیبیا میں امریکی مشن کے بارے میں بتایا۔
کانگریس میں اِس تقریر پر ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔ ری پبلکین پارٹی کے سینیٹر جان مک کین جِن کا تعلق مغربی ریاست اریزونا سے ہے اور جنھوں نے 2008ء میں مسٹر اوباما کے خلاف صدارتی انتخاب لڑا، اِس صدارتی اقدام کی تعریف کی ہے۔ تاہم اُنھوں نے سی این این کو بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ صدر کی حکمتِ عملی ایک معمہ ہے۔
دوسرے قانون سازوں کا کہنا ہے کہ تقریر میں اہم سوالات کے جواب نہیں دیے گئے جن کا تعلق امریکی مشن کے دورانیئے اور فوجی اقدام کی لاگت سے تعلق ہے۔
لیکن سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے قائد ہیری ریڈ، جِن کا تعلق نیواڈا ریاست سے ہے، اُن کا کہنا تھا کہ تقریر میں لیبیا کی آزادی سے متعلق واضح پیغام کی نشاندہی کی گئی۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ بری فوج کو نہ استعمال کرنے کے صدر کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں۔
کانگریس میں ملے جلے ردِ عمل سے امریکی رائے عامہ کا پتا چلتا ہے۔
پیر کے روز مسٹر اوباما کی تقریر سے قبل، آزاد پیو رسرچ سینٹر کی طرف سے جاری ہونے والے جائزے میں بتایا گیا ہے کہ 47فی صد امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ لیبیا پر فضائی حملے کرنے میں امریکہ حق بجانب تھا۔ چھتیس فی صد کا کہنا ہے کہ یہ ایک غلط فیصلہ تھا، جب کہ 17فی صد نے کسی رائےکا اظہار نہیں کیا۔
سروے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ امریکیوں کی نصف تعداد نہیں سمجھتی کہ لیبیا سے متعلق امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے سامنے کوئی واضح ہدف ہے۔