امریکہ کے صدر براک اوباما نے کئی دہائیوں کی کشیدگی کے بعد امریکہ اور کیوبا کے تعلقات میں آنے والی حالیہ گرم جوشی کا خیر مقدم کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جمہوریت اور انسانی حقوق جیسے معاملات پر "شدید اختلافات" اب بھی برقرار ہیں۔
پیر کو ہوانا میں اپنے کیوبن ہم منصب راؤل کاسترو کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ ان کے دورۂ کیوبا کا مقصد دونوں ملکوں کے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کو مہمیز بخشنا ہے۔
صدر اوباما نے کہا کہ انہوں نے کیوبن صدر کے ساتھ ملاقات میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے امکانات پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔
اس موقع صدر کاسترو کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کی جانب سے کیوبا پر عائد سفری اور تجارتی پابندیوں میں نرمی کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن امریکہ کو اس ضمن میں مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کو گزشتہ 55 برسوں سے کیوبا پر عائد تمام پابندیوں کا مکمل خاتمہ کرنا چاہیے تاکہ دونوں ممالک حقیقی معنوں میں ایک دوسرے کے قریب آسکیں اور فائدہ اٹھاسکیں۔
پریس کانفرنس کے دوران صدر کاسترو نے امریکہ سے کیوبا کے علاقے خلیجِ گوانتانامو کی وہ زمین بھی کیوبا کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا جہاں امریکی بحری اڈہ قائم ہے۔
صدر براک اوباما اتوار کی شام تین روزہ تاریخی دورے پر ہوانا پہنچے تھے جو گزشتہ 88 برسوں میں کسی امریکی صدر کا کیوبا کا پہلا دورہ ہے۔
اس دورے میں اعلیٰ امریکی حکام کے علاوہ صدر اوباما کے اہلِ خانہ بھی ان کے ہمراہ ہیں جنہوں نے ہفتے کی شب ہوانا کے تاریخی مقامات کی سیر و سیاحت میں گزارے۔
صدر اوباما کی اپنے کیوبن ہم منصب راؤل کاسترو سے ملاقات پیر کی دوپہر طے تھی جس کے لیے وہ جب کیوبا کے صدارتی محل 'قصرِ انقلاب' پہنچے تو صدر کاسترو نے ان کا استقبال کیا۔
اس سے قبل پیر کی صبح صدر اوباما نے کیوبا کی تحریکِ آزادی کے ہیرو جوز مارٹی کی یادگار پر حاضری دی اور پھولوں کی چادر چڑھائے۔
اس موقع پر مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات قلم بند کرتے ہوئے صدر اوباما نے لکھا کہ اپنے وطن کے لیے جان نچھاور کرنے والے جوز مارٹی جیسے ہیرو کوخراجِ تحسین پیش کرنے کا موقع ملنا ان کے لیے ایک بڑا اعزاز ہے۔ اپنے پیغام میں صدر اوباما نے لکھا کہ کیوبا کے عوام کی اپنی آزادی، حریت اور حقِ خود ارادیت سے وابستگی جوز مارٹی کی میراث ہے۔
اپنے دورے کے دوران امریکی صدر کیوبا کی کاروباری شخصیات کے ایک اجتماع سے خطاب کے علاوہ ہوانا کے امریکی سفارت خانے میں کیوبا کی کمیونسٹ حکومت کے سرگرم مخالفین سے نجی ملاقات بھی کریں گے۔
صدر اوباما کیوبن قوم سے سرکاری ٹی وی کے ذریعے براہِ راست خطاب بھی کریں گے جب کہ دورے کے آخری روز منگل کو صدر اوباما اور صدر کاسترو ہوانا میں بیس بال کا ایک نمائشی میچ دیکھیں گے۔
لیکن اپنے تین روزہ دورۂ کیوبا کے دوران صدر اوباما کی کیوبا کے کمیونسٹ انقلاب کے بانی اور موجودہ صدر کے بڑے بھائی فیڈل کاسترو سے کوئی ملاقات طے نہیں۔
سنہ 1928 کے بعد کسی امریکی صدر کا کیوبا کا یہ پہلا دورہ ہے۔ فیڈل کاسترو کی قیادت میں 1959ء میں کیوبا میں آنے والے کمیونسٹ انقلاب کے بعد واشنگٹن اور ہوانا کے سفارتی تعلقات منقطع ہوگئے تھے۔ لیکن صدر اوباما کی جانب سے کیوبا سے متعلق امریکی پالیسی میں تبدیلی کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان دسمبر 2014ء میں براہِ راست روابط کا آغاز ہوا تھا۔
ان روابط کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوچکے ہیں جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان ہوائی اور بحری رابطوں کی بحالی اور باہمی تجارت کے فروغ سے متعلق کئی معاہدات بھی طے پاگئے ہیں۔
صدر اوباما نے کیوبا پر 54 برسوں سے عائد امریکی پابندیاں اٹھانے کا بھی اعلان کر رکھا ہے لیکن کانگریس میں اکثریت کی حامل ری پبلکن جماعت کے رہنما کیوبا پر سے پابندیوں کے مکمل خاتمے کی مخالفت کر رہے ہیں۔