امریکہ کے صدر براک اوباما اپنے دورہ کیوبا میں منگل کو دارالحکومت ہوانا میں براہ راست عوام سے خطاب کریں گے جسے کیوبا کی حکومت کے مطابق پورے ملک میں نشر کیا جائے گا۔
صدر اوباما کے دورہ کیوبا کے حامی اسے "قسمت بدل دینے والا" دورہ قرار دیتے ہیں جب کہ اس کے مخالفین کا خیال ہے کہ اس سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
کچھ زیادہ پرانی بات نہیں کہ جب یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ ایک امریکی صدر کیوبا کے عوام سے خطاب کرے، اور جو وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ اوباما اپنے خطاب میں عوام کے لیے زیادہ آزادی پر بات کریں گے، اس کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اوباما کا دورہ اور خطاب عوام کے لیے ایک امید کا پیغام ہوگا کہ کیوبا ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔
"بیک چینل ٹو کیوبا" کے شریک مصنف پیٹر کورنبلا کہتے ہیں کہ " ان (اوباما) کی بات اس پیرائے میں ہو گی کہ میں اس ملک کا احتراماً دورہ کر رہا ہوں، ہمارے نظریات میں اختلافات ہوں گے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہم معمول کے مطابق مشترکہ مقاصد نہیں رکھ سکتے۔"
اوباما انتظامیہ اور دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ صدر کے دورے کا مقصد تعلقات کو (ایسا مضبوط بنانا ہے کہ اس سے پچھے نہ ہٹا جا سکے)۔
کورنبلا کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں آئندہ پانچ، چھ سالوں میں "آپ دیکھیں گے کہ کیوبا کے عوام کو انٹرنیٹ تک مکمل رسائی ہوگی، آپ جلسے جلوس دیکھیں گے۔"
تاہم اوباما کی اس پالیسی کے کئی کٹڑ مخالفین بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس نے کیوبا سے بغیر کچھ حاصل کیے بہت زیادہ رعائتیں دے دی ہیں۔ ان کے بقول کیوبا کی حالت تبدیل نہیں ہوگی بلکہ اس سے بھی زیادہ بگڑ سکتی ہے۔
ہیرٹیج فاؤنڈیشن سے وابستہ مائیک گونزالیز کہتے ہیں کہ کیوبا میں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہر اتوار کو "پیٹا" جاتا ہے۔
"صدر اوباما کا دورہ صرف اس ملک کو دنیا اور امریکہ کے لیے ایک قانونی حیثیت فراہم کرے گا۔"
وائٹ ہاؤس کا موقف ہے کہ کیوبا کے ساتھ 50 سال سے زائد عرصے تک رہنے والی مخاصمت سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی سے بھی جمہوریت کا کوئی راستہ نکلتا نظر نہیں آتا۔