صدر اوباما اور سینیٹ کے درمیان 'فسکل کلف' پر معاہدہ

US Congress

چونکہ ابھی اس معاہدے کی کانگریس سے توثیق باقی ہے اور جس میں کچھ روز لگ سکتے ہیں، امریکی قانون کے مطابق فسکل کلف سے بچنے کی پیر رات بارہ بجے کی ڈیڈلائن گزر چکی ہے اور قانونا امریکہ، چاہے کچھ روز کے لیے ہی سہی، فسکل کلف پار کر چکا ہے۔
واشنگٹن میں پیر کی رات گئے صدر اوباما اور سینیٹ رہنماوں کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے جسکے مطابق امریکی گھرانے جنکی آمدنی ساڑھے چا لاکھ ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے اب زیادہ ٹیکس ادا کریں گے۔ اس ڈیل پر ووٹ سینیٹ میں آج ہوگا، جبکہ ایوان نمائندگان اسکی توثیق بعد میں کرے گا۔

اس معاہدے کے بارے میں ڈیموکریٹک سینیٹرز نے اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے، جبکہ ریپبلیکنز کے اب بھی تحفظات ہیں۔ اگر اس معاہدے کی کانگریس سے توثیق ہوجاتی ہے تو یہ صدر اوباما کے اس وعدے کی تکمیل ہوگی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ امیر امریکیوں کے ٹیکس میں اضافہ کریں گے۔

سینیٹ آج ہی اس معاہدے پر ووٹ کرے گی اور نائب صدر بائڈن اور دیگر سرکردہ ڈیموکریٹک سینیٹروں کے مطابق اس معاہدے کا بل سینیٹ سے بھاری اکثریت سے منظور ہو جائیگا۔ جبکہ ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بینر نے کہا ہے کہ یہ بل ایوان نمائندگان میں اس وقت پیش کیا جائگا جب امریکی عوام اور ارکان کانگریس اسکو اچھی طرح دیکھ پائیں گے۔

چونکہ ابھی اس معاہدے کی توثیق باقی ہے جس میں کچھ روز لگ سکتے ہیں، امریکی قانون کے مطابق فسکل کلف سے بچنے کی پیر رات بارہ بجے کی ڈیڈلائن گزر چکی ہے اور قانونا امریکہ، چاہے کچھ روز کے لیے ہی سہی، فسکل کلف پار کر چکا ہے۔


اس سے پہلے پیر کی دوپہر صدر براک اوباما نے کہا کہ کانگریس کے اراکین کی یہی کوشش ہے کہ ’فسکل کلف‘ کے معاشی بحران سے بچنے کے لیے ’وسیع تر معاہدہ‘ طےپاجائے۔ صدر کے بقول، کوششیں جاری ہیں، لیکن یہ ابھی طے نہیں پایا۔

صدر نے اس بات کا اظہارِ خیال دوپہر وائٹ ہاؤس سے نشر ہونے والے ایک بیان میں کیا۔

صدر نے کہا کہ متوسط طبقے کے مفادات کا تحفظ پیش نظر ہے، اور یہ کہ اگر کوئی معاہدہ طے نہیں پاتا تو 98فی صد امریکیوں کو ٹیکس کی مد 2000ڈالراضافی انکم ٹیکس دینا ہوگی۔


اُنھوں نے بتایا کہ ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز قانون ساز اِس وقت بحث و مباحثے میں مصروف ہیں، اور امید کی جاتی ہے کہ مثبت پیش رفت سامنے آئے گی۔

صدر نے کہا کہ اگر کوئی پیش رفت سامنے نہیں آتی، تو دس گھنٹے دس منٹ بعد آدھی رات سے معاشی بحران کی صورتِ حال کا سامنا ہوگا۔ اُنھوں نے کہا کہ متوسط طبقہ اضافی ٹیکس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

صدر کے بقول، ’ابھی بہت کام کرنا باقی ہے‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ریپبلیکنز کی کوشش ہے کہ امیر طبقے پر ٹیکس میں اضافہ نہ ہو۔

اُن کے بقول، ’ہمیں خسارے سے نمٹنا ہے، معیشت کی نمو کو برقرار رکھنا ہے اور ایسے اقدامات کرنے ہیں کہ معیشت میں بہتری جاری رہے۔ اور اگر معاہدہ طے نہیں پاتا، تو ضروری اخراجات میں از خود کٹوتی ہوگی، جس میں محکمہٴ دفاع بھی شامل ہوگا۔‘


اُنھوں نے کہا کہ ازخود کٹوتی کے معاملے کے علاوہ خسارے سے نبردآزما ہونے کا معاملہ بھی توجہ طلب ہے، اور متوازن انداز اپنائے بغیر معاملات طے نہیں ہوں گے۔

’ہیلتھ کیئر‘ کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے، صدر نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ قانون ساز ایک ’متحدہ لائحہ عمل‘ پیدا کریں۔

اُنھوں نے ٹیکس اصلاحات پر زور دیا، اور ٹیکس کے نظام، سوشل سکیورٹی سے متعلق مراعات اور میڈیکیر کا ذکر کیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ عمر رسیدہ افراد اور طالب علموں پر بوجھ میں اضافے کا کوئی اقدام قابل قبول نہ ہوگا۔

اخراجات میں کٹوتی کے مطالبوں کے بارے میں صدر نے کہا کہ اخراجات میں کمی لانے سے معاملہ حل نہیں ہوتا، بلکہ اس کے لیے ایک متوازن انداز اپنانا ہوگا۔ اُن کے بقول، ڈیموکریٹس کے نزدیک اولین ترجیح یہ ہے کہ متوسط طبقے کے انکم ٹیکس میں اضافے کو روکا جائے۔

اُنھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ کانگریس اراکین معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں، لیکن یہ ابھی طے نہیں پایا۔
صدر اوباما نے کہا کہ،
’اس سلسلے میں آخری لمحے تک کوششیں جاری رہیں گی۔ امریکی عوام کی خواہش ہے کہ ہم کامیاب ہوں۔ جو لوگ بحث و مباحثے میں لگے ہوئے ہیں، اُن کی بھی یہی خواہش و کوشش ہے کہ کانگریس اپنے کام میں کامیاب ہو‘۔