صدر براک اوباما نے 1.1 کھرب ڈالر کے اخراجاتی بل کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت 2015ء کے دوران تقریباً ہر وفاقی ادارے کو فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔
بل جس پر منگل کو دیر گئے صدر نے دستخط کیے، اس میں صرف ایک استثنیٰ ہے کہ ہوم لینڈ سکیورٹی کے ادارے کو فروری کے اواخر تک فنڈز فراہم کیے گئے ہیں۔
ریپبلکن رہنماؤں نے اس ادارے کے فنڈز کی فراہمی کو اس لیے محدود کیا تاکہ وہ صدر پر اپنے اس انتظامی فیصلے کو واپس لینے پر زور دیں سکیں گے جس سے امریکہ میں غیر قانونی طور پر رہنے والے لاکھوں تارکین وطن کی ملک بدری کا خطرہ ختم ہو گیا ہے۔
گزشتہ ہفتہ اس بل کی حتمی منظوری کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے جب ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن سینیٹر ٹید کروز نے ایک مجوزہ قرار داد پر رائے شماری کا مطالبہ کیا جس میں ان فنڈز میں کٹوتی تجویز کی گئی جو صدر کے انتطامی فیصلے پر عمل درآمد کے لیے استعمال ہو سکیں گے۔
کانگرس کے ڈیموکریٹ ارکان نے میساچوسٹس سے تعلق رکھنے والی سینیٹر الزبتھ وارن کی قیادت میں اس بل میں شامل ایک شق کی وجہ سے اس کو روکنے کی دھمکی دی جو مالیاتی شعبے سے متعلق 2010ء میں منظور کیے گئے ڈاڈ فرینک قانون کے کچھ اقدامات کو نرم کر دے گی۔
صدر اوباما نے جمعہ کو کہا تھا کہ اس بل میں ایسے اقدامات شامل ہیں جو انہیں پسند نہیں ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ اس میں ایسے امور شامل ہیں جو صحت کی انشورنس پر پیش رفت، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے، بچوں کی ابتدائی تعلیم اور روزگار کے مواقع بڑھانے کو یقینی بنائیں گے۔
بالآخر اس بل کی منظوری اور اس پر دستخط ہونے کے بعد حکومت کے شٹ ڈاؤن کا خطرہ ختم ہو گیا جیسا کہ ایک سال قبل ہوا تھا۔
دفاعی اخراجاتی بل جس کی منظوری دی جا چکی ہے، میں افغانستان اور عراق میں کارروائیوں کے لیے تقریباً 64 ارب ڈالر کی رقم مختص کی گئی ہے۔ اس بل میں 'دولت اسلامیہ ' کے شدت پسندوں سے لڑنے کے لیے بھی اخراجات کی منظوری دی گئی ہے جس میں شامی معتدل باغیوں کی تربیت اور ان کو سازوسامان فراہم کرنا بھی شامل ہے۔