ایک اندازے کے مطابق کانگریس کی عمارت کے سامنے 'نیشنل مال' پر ہونے والی تقریب میں چھ لاکھ افراد شریک ہیں
واشنگٹن —
امریکہ کے نومنتخب صدر براک اوباما نے واشنگٹن میں ہونے والی ایک عوامی تقریب میں لاکھوں افراد کے سامنے دوسری مدتِ صدارت کے لیے اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا ہے۔
پیر کو واشنگٹن میں واقع کانگریس کی عمارت 'کیپٹل ہل' کے سامنے منعقد ہونے والی تقریب میں امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان جی رابرٹس جونیئر نے صدر اوباما سے ان کے عہدے کا حلف لیا۔
صدر سے قبل نائب صدر جو بائیڈن نے بھی اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ امریکی سپریم کورٹ کی تاریخ کی پہلی ہسپانوی نژاد اور تیسری خاتون جج سونیا سوٹو مائر نے نائب صدر سے ان کے عہدے کا حلف لیا۔
تقریبِ حلف برداری کے آغاز میں شہری حقوق کے آنجہانی رہنما میڈگر ایورز کی بیوہ مرلی ایورز ولیمز نے دعائیہ خطاب کیا اور نئے صدر اور ملک کے لیے خدا سے مدد طلب کی۔
میڈگر ایورز کو 50 برس قبل جنوبی امریکی ریاست مسی سپی میں قتل کردیا گیا تھا۔
دعا کے بعد تقریب میں امریکہ کا قومی ترانہ گایا گیا جس کےبعد پہلے نائب صدر جو بائیڈن نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔
نائب صدر کی حلف برداری کے بعد معروف موسیقار و گلوکار جیمز ٹیلر نے قومی نغمہ گایا جس پر صدر اوباما اور دیگر شرکا نے انہیں کھڑے ہوکر داد دی۔
نغمے کے بعد امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے صدر اوباما سے ان کے عہدے کا حلف لیا۔
صدر نے انجیل کے جن دو تاریخی نسخوں پر ہاتھ رکھ کر حلف لیا ان میں سے ایک 1861ء میں امریکہ کے صدر بننے والے ابراہم لنکن کا جب کہ دوسرا بیسویں صدی کے امریکہ میں شہری آزادیوں کے لیے جدوجہد کرنے والے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی ملکیت تھا جو 1968ء میں قتل کردیے گئے تھے۔
صدر اومابا کی حلف برداری کی یہ تقریب مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی سرکاری سطح پر منائی جانے والی سالگرہ کے دن ہوئی ہے۔
حلف برداری کے موقع پر خاتونِ اول مشیل اوباما اور ان کی صاحبزادیاں مالیا اور ساشا بھی صدر کے ساتھ کھڑی تھیں۔
امریکہ کے کئی سابق صدور اور خواتینِ اول، صدر اوباما کی کابینہ کے ارکان، اراکینِ کانگریس، واشنگٹن میں تعینات مختلف ممالک کے سفیر اور دیگر اہم شخصیات کے علاوہ لاکھوں افراد نے 'نیشنل مال' میں منعقدہ تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی۔
ایک اندازے کے مطابق تقریب میں آٹھ لاکھ افراد شریک ہوئے۔ تاہم یہ تعدادصدر اوباما کی پہلی مدت صدارت کے آغاز پر جنوری 2009ء میں ہونے والی تقریبِ حلف برداری کے شرکا سے کہیں کم ہے جس میں 20 لاکھ لوگوں نے شرکت کی تھی۔
صدر و نائب صدر دونوں ہی اتوار کو نجی تقاریب میں اپنے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا چکے تھے کیوں کہ امریکی آئین کے تحت نو منتخب صدر 20 جنوری کو حلف اٹھانے کا پابند ہے۔
لیکن 20 جنوری کو اتوار ہونے کے سبب حلف برداری کی روایتی تقریب ایک روز تاخیر سے پیر کو واشنگٹن میں کانگریس کی عمارت کے سامنے 'نیشنل مال ' کے مقام پر منعقد ہوئی جس میں صدر اوباما اور جو بائیڈن نے دوبارہ اپنے اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا۔
صدر اوباما نے ماضی میں حلف اٹھانے والے امریکی صدور کی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے پیر کو اپنے دن کا آغاز واشنگٹن کے 'سینٹ جون ایپسکوپل چرچ' میں منعقدہ دعائیہ تقریب میں شرکت سے کیا ۔
ماضی میں بھی واشنگٹن میں حلف اٹھانے والے تمام صدور حلف برداری سے قبل اس گرجا گھر میں حاضر ہوتے رہے ہیں۔
حلف برداری کی عوامی تقریب میں محفلِ موسیقی کا بھی انتظام کیا گیا تھا جس میں جیمز ٹیلر، کیلی کلارکسن اور بیونسی نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
تقریبِ حلف برداری سے فراغت کے بعد صدر اور نائب صدر 'کیپٹل' کی عمارت میں ہونے والے روایتی ظہرانے میں شریک ہوں گے جس کے بعد وہ ایک قافلے کی صورت میں 'وہائٹ ہائوس' تک جائیں گے۔
امکان ہے کہ چار برس قبل کی طرح اس بار بھی صدر اوباما اپنی گاڑی سے باہر آکر اپنے ہمراہیوں کے ساتھ کچھ فاصلہ پیدل ہی طے کریں گے اور سڑک کے دونوں کناروں پر جمع ہونے والے ہزاروں افراد کے خیر مقدمی نعروں کا جواب دیں گے۔
پیر کو واشنگٹن میں واقع کانگریس کی عمارت 'کیپٹل ہل' کے سامنے منعقد ہونے والی تقریب میں امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان جی رابرٹس جونیئر نے صدر اوباما سے ان کے عہدے کا حلف لیا۔
صدر سے قبل نائب صدر جو بائیڈن نے بھی اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ امریکی سپریم کورٹ کی تاریخ کی پہلی ہسپانوی نژاد اور تیسری خاتون جج سونیا سوٹو مائر نے نائب صدر سے ان کے عہدے کا حلف لیا۔
تقریبِ حلف برداری کے آغاز میں شہری حقوق کے آنجہانی رہنما میڈگر ایورز کی بیوہ مرلی ایورز ولیمز نے دعائیہ خطاب کیا اور نئے صدر اور ملک کے لیے خدا سے مدد طلب کی۔
میڈگر ایورز کو 50 برس قبل جنوبی امریکی ریاست مسی سپی میں قتل کردیا گیا تھا۔
دعا کے بعد تقریب میں امریکہ کا قومی ترانہ گایا گیا جس کےبعد پہلے نائب صدر جو بائیڈن نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔
نغمے کے بعد امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے صدر اوباما سے ان کے عہدے کا حلف لیا۔
صدر نے انجیل کے جن دو تاریخی نسخوں پر ہاتھ رکھ کر حلف لیا ان میں سے ایک 1861ء میں امریکہ کے صدر بننے والے ابراہم لنکن کا جب کہ دوسرا بیسویں صدی کے امریکہ میں شہری آزادیوں کے لیے جدوجہد کرنے والے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی ملکیت تھا جو 1968ء میں قتل کردیے گئے تھے۔
صدر اومابا کی حلف برداری کی یہ تقریب مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی سرکاری سطح پر منائی جانے والی سالگرہ کے دن ہوئی ہے۔
حلف برداری کے موقع پر خاتونِ اول مشیل اوباما اور ان کی صاحبزادیاں مالیا اور ساشا بھی صدر کے ساتھ کھڑی تھیں۔
امریکہ کے کئی سابق صدور اور خواتینِ اول، صدر اوباما کی کابینہ کے ارکان، اراکینِ کانگریس، واشنگٹن میں تعینات مختلف ممالک کے سفیر اور دیگر اہم شخصیات کے علاوہ لاکھوں افراد نے 'نیشنل مال' میں منعقدہ تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی۔
ایک اندازے کے مطابق تقریب میں آٹھ لاکھ افراد شریک ہوئے۔ تاہم یہ تعدادصدر اوباما کی پہلی مدت صدارت کے آغاز پر جنوری 2009ء میں ہونے والی تقریبِ حلف برداری کے شرکا سے کہیں کم ہے جس میں 20 لاکھ لوگوں نے شرکت کی تھی۔
صدر و نائب صدر دونوں ہی اتوار کو نجی تقاریب میں اپنے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا چکے تھے کیوں کہ امریکی آئین کے تحت نو منتخب صدر 20 جنوری کو حلف اٹھانے کا پابند ہے۔
لیکن 20 جنوری کو اتوار ہونے کے سبب حلف برداری کی روایتی تقریب ایک روز تاخیر سے پیر کو واشنگٹن میں کانگریس کی عمارت کے سامنے 'نیشنل مال ' کے مقام پر منعقد ہوئی جس میں صدر اوباما اور جو بائیڈن نے دوبارہ اپنے اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا۔
صدر اوباما نے ماضی میں حلف اٹھانے والے امریکی صدور کی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے پیر کو اپنے دن کا آغاز واشنگٹن کے 'سینٹ جون ایپسکوپل چرچ' میں منعقدہ دعائیہ تقریب میں شرکت سے کیا ۔
ماضی میں بھی واشنگٹن میں حلف اٹھانے والے تمام صدور حلف برداری سے قبل اس گرجا گھر میں حاضر ہوتے رہے ہیں۔
حلف برداری کی عوامی تقریب میں محفلِ موسیقی کا بھی انتظام کیا گیا تھا جس میں جیمز ٹیلر، کیلی کلارکسن اور بیونسی نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
تقریبِ حلف برداری سے فراغت کے بعد صدر اور نائب صدر 'کیپٹل' کی عمارت میں ہونے والے روایتی ظہرانے میں شریک ہوں گے جس کے بعد وہ ایک قافلے کی صورت میں 'وہائٹ ہائوس' تک جائیں گے۔
امکان ہے کہ چار برس قبل کی طرح اس بار بھی صدر اوباما اپنی گاڑی سے باہر آکر اپنے ہمراہیوں کے ساتھ کچھ فاصلہ پیدل ہی طے کریں گے اور سڑک کے دونوں کناروں پر جمع ہونے والے ہزاروں افراد کے خیر مقدمی نعروں کا جواب دیں گے۔