انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی تنظیمیں اوباما انتظامیہ پر مسلسل دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ اپنی کارروائیوں کو زیادہ شفاف رکھے ۔
وائٹ ہاؤس —
اس ہفتے صدر براک اوباما نے وعدہ کیا کہ دہشت گردی کے مشتبہ ملزموں کو نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کی کارروائی سمیت، دہشت گردی کے انسداد کے لیے امریکہ کے مجموعی آپریشنز کی رہنمائی کے لیے ، پالیسی کا ایک واضح خاکہ تیار کیا جائے گا ۔ لیکن ان کے اس وعدے سے جو اسٹیٹ آف دی یونین کی تقریر میں کیا گیا، سب ناقدین مطمئن نہیں ہوئے ۔
مسٹر اوباما کی انتظامیہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو طریقے اختیار کرتی ہے، ان کو بیان کرنے کے لیے مسٹر اوباما نے اپنے الفاظ بڑی احتیاط سے منتخب کیے۔ ان طریقوں میں دہشت گردی کے مشتبہ ملزموں کو بغیر پائلٹ والے جہازوں سے، جنہیں ڈرونز کہتے ہیں، ہلاک کرنا بھی شامل ہے ۔ ان جہازوں کی نقل و حرکت کو بہت دور فاصلے سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
صدر نے اپنی تقریر میں ڈرون کا لفظ استعمال کیے بغیر یہ کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف مختلف قسم کے وسائل استعمال کیے جائیں گے۔ انھوں نے اس تقریر میں ان پہلوؤں پر توجہ دی جن پر امریکی کانگریس کے ارکان کو تشویش ہے ۔
انھوں نے کہا’’ہماری جمہوریت میں، کسی کو صرف میرے یہ کہنے پر انحصار نہیں کر نا چاہیئے کہ ہم ہر کام صحیح طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ آنے والے مہینوں میں، میں کانگریس سے رابطہ جاری رکھوں گا تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ نہ صرف یہ کہ ہماری طرف سے دہشت گردوں کو نشانہ بنانا، حراست میں لینا، اور ان پر مقدمہ چلانا ہمارے قوانین اور اختیارات کے استعمال میں روک تھام اور توازن کے نظام سے ہم آہنگ ہے ، بلکہ یہ بھی کہ ہماری کوششیں امریکی عوام کے لیے اور دنیا کے لیے اور بھی زیادہ شفاف ہیں۔‘‘
انھوں نے انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے پائیدار قانونی نظام اور پالیسی کے ڈھانچے کی ضرورت پر زور دیا۔
محکمۂ انصاف کی ایک رپورٹ کے افشا ہونے کے بعد، نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کے جواز کے بارے میں تنازع ایک بار پھر کھل کر سامنے آگیا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیرونِ ملک القاعدہ اور اس سے منسلک تنظیموں کے لیے کام کرنے والے امریکیوں کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا جا سکتا ہے اگر کوئی اعلیٰ امریکی عہدے دار اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کی طرف سے امریکہ پر پُر تشدد حملے کا فوری خطرہ ہے ۔
اس رپورٹ سے کیپیٹل ہل پر تنقید کی لہر دوڑ گئی ۔ سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی خاتون چیئر پرسن ڈیانے فیئنسٹئین نے مطالبہ کیا کہ وائٹ ہاؤس اس پالیسی کی تشکیل میں استعمال کی جانے والی قانونی آرا کو ظاہر کرے ۔
انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی تنظیمیں اوباما انتظامیہ پر مسلسل دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ اپنی کارروائیوں کو زیادہ شفاف رکھے ۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل یو ایس اے کی سیکورٹی اور انسانی حقوق کی مہم کے ڈائریکٹرذکے جونسن کہتے ہیں کہ مسٹر اوباما نے اپنی اسٹیٹ آف دی یونین کی تقریر میں اس موضوع پر جو کچھ کہا، وہ ناکافی تھا ۔
’’ان پر لازم تھا کہ وہ یہ بات واضح کر دیتے کہ جہاں تک جان لیوا طاقت کے استعمال کا تعلق ہے، لوگوں کو حراست میں لینے کا تعلق ہے، اذیتیں دینے کے مسئلے کا تعلق ہے ، امریکہ اپنی انسانی حقوق کی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرے گا۔ قانون کے تحت یہ ذمہ داریاں بالکل واضح ہیں، اور امریکی حکومت کو اور صدر اوباما کو، ایک بار پھر انہیں پورا کرنے کا عہد کرنا چاہیئے۔‘‘
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ ان معاملات کو قانونی شکل دینے کے بارے میں کانگریس کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔
پریس سیکرٹری جے کارنے کہتے ہیں کہ کانگریس کے ساتھ مل کر مشترکہ اقدامات کرنے ضروری ہوں گے۔ ’’صدر ان معاملات کی سنگینی کو سمجھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس معاملے میں اپنی ذمے داریوں کو بڑی سنجیدگی سے لیا ہے، اور جیساکہ آپ نے دیکھا ہے وہ کھل کر اس بارے میں بات کر رہے ہیں۔‘‘
امریکن سول لبرٹیز یونین کے نیشنل سیکورٹی پراجیکٹ کی ڈائریکٹر، حنا شمسی نے امریکی انتظامیہ کی طرف نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کے جواز کے لیے، اس قانون کے استعمال کو چیلنج کیا ہے جو گیارہ ستمبر،2011 کے القاعدہ کے حملے کے بعد منظور کیا گیا تھا ۔
’’اس قانون میں انتہائی ڈھیلی ڈھالی زبان استعمال کی گئی ہے جسے انتظامیہ افغانستان سے اور مسلح تصادم سے بہت دور کے علاقوں میں نشانہ بنا کر ہلاکتوں کے جواز کے طور پر استعمال کر رہی ہے ۔ ہمارے خیال میں اتھارائزیشن فار یوز آف ملٹری فورس کے تحت ، انتظامیہ کو وہ اختیار حاصل نہیں ہے جو وہ ان حملوں کے جواز کے طور پر استعمال کر رہی ہے ۔‘‘
امریکی کانگریس کے اس مطالبے کی وجہ سے کہ وائٹ ہاؤس نشانہ بنا کر ہلاک کیے جانے کے بارے میں تمام خفیہ قانونی آرا سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے حوالے کرے، سی آئی اے کے سربراہ کے عہدے کے لیے نامزد فرد جان برینن کی ووٹنگ میں تاخیر ہو گئی ہے۔
برینن نے کمیٹی کو بتایا کہ نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کا حکم صرف اس صورت میں دیا جاتا ہے جب جانیں بچانے کے لیے کوئی چارۂ کار باقی نہیں رہتا۔ لیکن انھوں نے کہا کہ یہ پروگرام امریکی عوام اور دنیا کے لیے اور بھی زیادہ شفاف ہونا چاہیئے ۔
مسٹر اوباما کی انتظامیہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو طریقے اختیار کرتی ہے، ان کو بیان کرنے کے لیے مسٹر اوباما نے اپنے الفاظ بڑی احتیاط سے منتخب کیے۔ ان طریقوں میں دہشت گردی کے مشتبہ ملزموں کو بغیر پائلٹ والے جہازوں سے، جنہیں ڈرونز کہتے ہیں، ہلاک کرنا بھی شامل ہے ۔ ان جہازوں کی نقل و حرکت کو بہت دور فاصلے سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
صدر نے اپنی تقریر میں ڈرون کا لفظ استعمال کیے بغیر یہ کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف مختلف قسم کے وسائل استعمال کیے جائیں گے۔ انھوں نے اس تقریر میں ان پہلوؤں پر توجہ دی جن پر امریکی کانگریس کے ارکان کو تشویش ہے ۔
انھوں نے کہا’’ہماری جمہوریت میں، کسی کو صرف میرے یہ کہنے پر انحصار نہیں کر نا چاہیئے کہ ہم ہر کام صحیح طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ آنے والے مہینوں میں، میں کانگریس سے رابطہ جاری رکھوں گا تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ نہ صرف یہ کہ ہماری طرف سے دہشت گردوں کو نشانہ بنانا، حراست میں لینا، اور ان پر مقدمہ چلانا ہمارے قوانین اور اختیارات کے استعمال میں روک تھام اور توازن کے نظام سے ہم آہنگ ہے ، بلکہ یہ بھی کہ ہماری کوششیں امریکی عوام کے لیے اور دنیا کے لیے اور بھی زیادہ شفاف ہیں۔‘‘
انھوں نے انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے پائیدار قانونی نظام اور پالیسی کے ڈھانچے کی ضرورت پر زور دیا۔
محکمۂ انصاف کی ایک رپورٹ کے افشا ہونے کے بعد، نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کے جواز کے بارے میں تنازع ایک بار پھر کھل کر سامنے آگیا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیرونِ ملک القاعدہ اور اس سے منسلک تنظیموں کے لیے کام کرنے والے امریکیوں کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا جا سکتا ہے اگر کوئی اعلیٰ امریکی عہدے دار اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کی طرف سے امریکہ پر پُر تشدد حملے کا فوری خطرہ ہے ۔
اس رپورٹ سے کیپیٹل ہل پر تنقید کی لہر دوڑ گئی ۔ سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی خاتون چیئر پرسن ڈیانے فیئنسٹئین نے مطالبہ کیا کہ وائٹ ہاؤس اس پالیسی کی تشکیل میں استعمال کی جانے والی قانونی آرا کو ظاہر کرے ۔
انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی تنظیمیں اوباما انتظامیہ پر مسلسل دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ اپنی کارروائیوں کو زیادہ شفاف رکھے ۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل یو ایس اے کی سیکورٹی اور انسانی حقوق کی مہم کے ڈائریکٹرذکے جونسن کہتے ہیں کہ مسٹر اوباما نے اپنی اسٹیٹ آف دی یونین کی تقریر میں اس موضوع پر جو کچھ کہا، وہ ناکافی تھا ۔
’’ان پر لازم تھا کہ وہ یہ بات واضح کر دیتے کہ جہاں تک جان لیوا طاقت کے استعمال کا تعلق ہے، لوگوں کو حراست میں لینے کا تعلق ہے، اذیتیں دینے کے مسئلے کا تعلق ہے ، امریکہ اپنی انسانی حقوق کی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرے گا۔ قانون کے تحت یہ ذمہ داریاں بالکل واضح ہیں، اور امریکی حکومت کو اور صدر اوباما کو، ایک بار پھر انہیں پورا کرنے کا عہد کرنا چاہیئے۔‘‘
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ ان معاملات کو قانونی شکل دینے کے بارے میں کانگریس کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔
پریس سیکرٹری جے کارنے کہتے ہیں کہ کانگریس کے ساتھ مل کر مشترکہ اقدامات کرنے ضروری ہوں گے۔ ’’صدر ان معاملات کی سنگینی کو سمجھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس معاملے میں اپنی ذمے داریوں کو بڑی سنجیدگی سے لیا ہے، اور جیساکہ آپ نے دیکھا ہے وہ کھل کر اس بارے میں بات کر رہے ہیں۔‘‘
امریکن سول لبرٹیز یونین کے نیشنل سیکورٹی پراجیکٹ کی ڈائریکٹر، حنا شمسی نے امریکی انتظامیہ کی طرف نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کے جواز کے لیے، اس قانون کے استعمال کو چیلنج کیا ہے جو گیارہ ستمبر،2011 کے القاعدہ کے حملے کے بعد منظور کیا گیا تھا ۔
’’اس قانون میں انتہائی ڈھیلی ڈھالی زبان استعمال کی گئی ہے جسے انتظامیہ افغانستان سے اور مسلح تصادم سے بہت دور کے علاقوں میں نشانہ بنا کر ہلاکتوں کے جواز کے طور پر استعمال کر رہی ہے ۔ ہمارے خیال میں اتھارائزیشن فار یوز آف ملٹری فورس کے تحت ، انتظامیہ کو وہ اختیار حاصل نہیں ہے جو وہ ان حملوں کے جواز کے طور پر استعمال کر رہی ہے ۔‘‘
امریکی کانگریس کے اس مطالبے کی وجہ سے کہ وائٹ ہاؤس نشانہ بنا کر ہلاک کیے جانے کے بارے میں تمام خفیہ قانونی آرا سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے حوالے کرے، سی آئی اے کے سربراہ کے عہدے کے لیے نامزد فرد جان برینن کی ووٹنگ میں تاخیر ہو گئی ہے۔
برینن نے کمیٹی کو بتایا کہ نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کا حکم صرف اس صورت میں دیا جاتا ہے جب جانیں بچانے کے لیے کوئی چارۂ کار باقی نہیں رہتا۔ لیکن انھوں نے کہا کہ یہ پروگرام امریکی عوام اور دنیا کے لیے اور بھی زیادہ شفاف ہونا چاہیئے ۔