واشنگٹن —
امریکی انتطامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ صدر براک اوباما نے محکمہ انصاف کو وہ خفیہ دستاویزات کانگریس کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے جن میں بیرونِ ملک موجود شدت پسند امریکی شہریوں پر ڈرون حملے کا قانونی جواز پیش کیا گیا ہے۔
امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا ہے کہ صدر اوباما کے حکم پر مذکورہ دستاویزات امریکی سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کی 'انٹیلی جنس' کمیٹیوں کےسپرد کی جائیں گی۔
منگل کو امریکی اخبارات نے محکمہ انصاف کا ایک خفیہ میمو شائع کیا تھا جس میں بیرونِ ملک موجود ایسے امریکی شہریوں پر ڈرون حملوں کو قانونی قرار دیا گیا تھا جن کے بارے میں حکومت کو یقین ہو کہ وہ دہشت گردی یا اس کی منصوبہ بندی میں ملوث ہیں۔
اس میمو کے منظرِ عام پر آنے کے بعد 11 امریکی سینیٹروں کے ایک گروپ نے اوباما انتظامیہ سے امریکی شہریوں پر حملوں کے قانونی جواز سے متعلق محکمہ انصاف کی جانب سے دی جانے والی تمام تر آرا کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔
امریکی حکومت ماضی میں اپنے ہی شہریوں کے خلاف حملوں کو اس صورت میں جائز قرار دیتی آئی ہے جب حکام کو ان کی جانب سے دہشت گردی کی کسی کاروائی کا یقین ہو۔
لیکن منظرِ عام پر آنے والے خفیہ میمو میں کہا گیا تھا کہ کسی ایسے امریکی شہری کو ہلاک کرنا بھی درست ہے جو دہشت گردی کی کاروائی کی منصوبہ بندی میں شریک ہو یا جب حکام کو لگے کہ مطلوب مشتبہ دہشت گرد زندہ گرفتارنہیں کیا جاسکتا۔
بعض امریکی قانون ساز، ماہرینِ قانون اور شہری آزادیوں کے لیے سرگرم کارکنان نے امریکی حکومت کی اس پالیسی پر کڑی نکتہ چینی کی ہے اور اس نوعیت کی کاروائی کو امریکی شہریوں کے ماورائے عدالت قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔
اس بحث نے پہلی بار 2011ء میں اس وقت زور پکڑا تھا جب امریکہ کی جانب سے یمن میں کیے جانے والے دو مختلف ڈرون حملوں میں 'القاعدہ' سے منسلک تین امریکی شہری مارے گئے تھے۔
اوباما انتظامیہ ان حملوں کے بعد سے انہیں قانونی قرار دیتے ہوئے اس پالیسی کی حمایت کرتی آئی ہے۔ اس وقت امریکی انتظامیہ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور یمن میں 'القاعدہ' سے منسلک شدت پسندوں کے خلاف ڈرون حملوں کی غیر اعلانیہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
ناقدین ڈرون حملوں کو غیر اخلاقی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بغیر پائلٹ والے طیاروں کے ذریعے کیے جانے والے حملوں میں اکثر اوقات عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں ۔
امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا ہے کہ صدر اوباما کے حکم پر مذکورہ دستاویزات امریکی سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کی 'انٹیلی جنس' کمیٹیوں کےسپرد کی جائیں گی۔
منگل کو امریکی اخبارات نے محکمہ انصاف کا ایک خفیہ میمو شائع کیا تھا جس میں بیرونِ ملک موجود ایسے امریکی شہریوں پر ڈرون حملوں کو قانونی قرار دیا گیا تھا جن کے بارے میں حکومت کو یقین ہو کہ وہ دہشت گردی یا اس کی منصوبہ بندی میں ملوث ہیں۔
اس میمو کے منظرِ عام پر آنے کے بعد 11 امریکی سینیٹروں کے ایک گروپ نے اوباما انتظامیہ سے امریکی شہریوں پر حملوں کے قانونی جواز سے متعلق محکمہ انصاف کی جانب سے دی جانے والی تمام تر آرا کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔
امریکی حکومت ماضی میں اپنے ہی شہریوں کے خلاف حملوں کو اس صورت میں جائز قرار دیتی آئی ہے جب حکام کو ان کی جانب سے دہشت گردی کی کسی کاروائی کا یقین ہو۔
لیکن منظرِ عام پر آنے والے خفیہ میمو میں کہا گیا تھا کہ کسی ایسے امریکی شہری کو ہلاک کرنا بھی درست ہے جو دہشت گردی کی کاروائی کی منصوبہ بندی میں شریک ہو یا جب حکام کو لگے کہ مطلوب مشتبہ دہشت گرد زندہ گرفتارنہیں کیا جاسکتا۔
بعض امریکی قانون ساز، ماہرینِ قانون اور شہری آزادیوں کے لیے سرگرم کارکنان نے امریکی حکومت کی اس پالیسی پر کڑی نکتہ چینی کی ہے اور اس نوعیت کی کاروائی کو امریکی شہریوں کے ماورائے عدالت قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔
اس بحث نے پہلی بار 2011ء میں اس وقت زور پکڑا تھا جب امریکہ کی جانب سے یمن میں کیے جانے والے دو مختلف ڈرون حملوں میں 'القاعدہ' سے منسلک تین امریکی شہری مارے گئے تھے۔
اوباما انتظامیہ ان حملوں کے بعد سے انہیں قانونی قرار دیتے ہوئے اس پالیسی کی حمایت کرتی آئی ہے۔ اس وقت امریکی انتظامیہ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور یمن میں 'القاعدہ' سے منسلک شدت پسندوں کے خلاف ڈرون حملوں کی غیر اعلانیہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
ناقدین ڈرون حملوں کو غیر اخلاقی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بغیر پائلٹ والے طیاروں کے ذریعے کیے جانے والے حملوں میں اکثر اوقات عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں ۔