امریکی صدر نے صدر پیوٹن پر واضح کیا کہ اگر روس نے یوکرین میں جاری کشیدگی کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے تو ان کے ملک کو اس کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔
واشنگٹن —
امریکہ کے صدر براک اوباما نے خبر دار کیا ہے کہ اگر روس نے یوکرین میں جاری کشیدگی کم کرنے کے لیے اقدامات نہ کیے تو اسے اس کی "قیمت" ادا کرنی ہوگی۔
'وہائٹ ہاؤس' کے مطابق صدر اوباما نے اپنے روسی ہم منصب کو ٹیلی فون کرکے ان پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرین میں قیامِ امن کی کوششوں کی حمایت کریں۔
'وائٹ ہاؤس' کے ترجمان جوش ارنسٹ نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران صدر اوباما نے روسی صدر سے کہا کہ انہیں شمالی یوکرین میں سرگرم علیحدگی پسندوں کو ہتھیاروں اور دیگر سامان کی فراہمی روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں کیوں کہ اس کے نتیجے میں یوکرین مزید عدم استحکام کا شکار ہورہا ہے۔
ترجمان کے مطابق امریکی صدر نے صدر پیوٹن پر واضح کیا کہ اگر روس نے یوکرین میں جاری کشیدگی کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے تو ان کے ملک کو اس کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔
خیال رہے کہ امریکہ پہلے ہی دھمکی دے چکا ہے کہ اگر روس نے یوکرین میں علیحدگی پسندوں کی مبینہ مدد بند نہ کی تو اس کے معاشی اداروں اور دفاعی صنعت پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
روس پر مزید پابندیاں عائد کرنے سے متعلق امریکی حکام کی اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ مشاورت بھی جاری ہے۔
پیر کو یورپی وزرائے خارجہ نے بھی روس کو متنبہ کیا تھا اگر اس نے یوکرین کے صدر کی جانب سے اعلان کردہ علیحدگی پسندی کے خاتمے کے منصوبے میں ان کے ساتھ تعاون نہ کیا تو اس پر مزید پابندیاں عائد کردی جائیں گی۔
پیر کو جاری کیے جانے والے اپنے ایک مشترکہ بیان میں یورپی یونین کے 28 ملکوں کے وزرائے خارجہ نے روسی صدر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یوکرین کی سرحد پر موجود روسی فوجی دستوں کو فوراً واپس بلائیں۔
خیال رہے کہ یوکرین کے صدر پیٹرو پوروشینکو نے ملک کے مشرقی علاقوں میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے خلاف یوکرینی فوج کی کارروائی ایک ہفتے کے لیے روکنے کا اعلان کیا ہے۔
اسی دوران روسی اور یوکرینی ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ مشرقی یوکرین میں جاری بحران کے خاتمے کے لیے علیحدگی پسندوں کے زیرِ قبضہ شہر ڈونیسک میں مذاکرات شروع ہوگئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق مذاکرات میں یوکرین کے سابق صدر لیونڈ کوچما، یوکرین میں روس کے سفیر میخائل زورا بوف، روس نواز سیاسی جماعت 'یوکرینین چوائس' کے سربراہ وکٹر میدویدچک، ڈونیسک میں قائم علیحدگی پسندوں کی حکومت کے وزیرِاعظم الیگزنڈر بوروڈی، باغیوں کے زیرِ قبضہ ایک دوسرے شہر لوہانسک کی حکومت کے نمائندے اور یورپی تنظیم برائے سلامتی و تعاون کے نمائندے شریک ہیں۔
اس سے قبل ہفتے کو روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے یوکرین کے مسئلے کے سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ تنازع کے حل کے لیے ہونے والے کسی بھی سمجھوتے میں یوکرین کے مشرقی علاقوں میں آباد روسی بولنے والے افراد کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا۔
'وہائٹ ہاؤس' کے مطابق صدر اوباما نے اپنے روسی ہم منصب کو ٹیلی فون کرکے ان پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرین میں قیامِ امن کی کوششوں کی حمایت کریں۔
'وائٹ ہاؤس' کے ترجمان جوش ارنسٹ نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران صدر اوباما نے روسی صدر سے کہا کہ انہیں شمالی یوکرین میں سرگرم علیحدگی پسندوں کو ہتھیاروں اور دیگر سامان کی فراہمی روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں کیوں کہ اس کے نتیجے میں یوکرین مزید عدم استحکام کا شکار ہورہا ہے۔
ترجمان کے مطابق امریکی صدر نے صدر پیوٹن پر واضح کیا کہ اگر روس نے یوکرین میں جاری کشیدگی کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے تو ان کے ملک کو اس کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔
خیال رہے کہ امریکہ پہلے ہی دھمکی دے چکا ہے کہ اگر روس نے یوکرین میں علیحدگی پسندوں کی مبینہ مدد بند نہ کی تو اس کے معاشی اداروں اور دفاعی صنعت پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
روس پر مزید پابندیاں عائد کرنے سے متعلق امریکی حکام کی اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ مشاورت بھی جاری ہے۔
پیر کو یورپی وزرائے خارجہ نے بھی روس کو متنبہ کیا تھا اگر اس نے یوکرین کے صدر کی جانب سے اعلان کردہ علیحدگی پسندی کے خاتمے کے منصوبے میں ان کے ساتھ تعاون نہ کیا تو اس پر مزید پابندیاں عائد کردی جائیں گی۔
پیر کو جاری کیے جانے والے اپنے ایک مشترکہ بیان میں یورپی یونین کے 28 ملکوں کے وزرائے خارجہ نے روسی صدر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یوکرین کی سرحد پر موجود روسی فوجی دستوں کو فوراً واپس بلائیں۔
خیال رہے کہ یوکرین کے صدر پیٹرو پوروشینکو نے ملک کے مشرقی علاقوں میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے خلاف یوکرینی فوج کی کارروائی ایک ہفتے کے لیے روکنے کا اعلان کیا ہے۔
اسی دوران روسی اور یوکرینی ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ مشرقی یوکرین میں جاری بحران کے خاتمے کے لیے علیحدگی پسندوں کے زیرِ قبضہ شہر ڈونیسک میں مذاکرات شروع ہوگئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق مذاکرات میں یوکرین کے سابق صدر لیونڈ کوچما، یوکرین میں روس کے سفیر میخائل زورا بوف، روس نواز سیاسی جماعت 'یوکرینین چوائس' کے سربراہ وکٹر میدویدچک، ڈونیسک میں قائم علیحدگی پسندوں کی حکومت کے وزیرِاعظم الیگزنڈر بوروڈی، باغیوں کے زیرِ قبضہ ایک دوسرے شہر لوہانسک کی حکومت کے نمائندے اور یورپی تنظیم برائے سلامتی و تعاون کے نمائندے شریک ہیں۔
اس سے قبل ہفتے کو روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے یوکرین کے مسئلے کے سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ تنازع کے حل کے لیے ہونے والے کسی بھی سمجھوتے میں یوکرین کے مشرقی علاقوں میں آباد روسی بولنے والے افراد کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا۔