واشنگٹن —
امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے ان کا ملک اور عالمی برادری روس کے "سیاہ ہتھکنڈوں" کے مقابلے پر یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں۔
بدھ کو پولینڈ میں 'یومِ آزادی' کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما کا کہنا تھا کہ بڑی طاقتوں کو چھوٹے ممالک پر دھونس جمانے یا بندوق کی نوک پر ان پہ اپنی مرضی تھوپنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔
صدر اوباما نے یوکرین کے علاقے کرائمیا کے روس کے ساتھ الحاق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ محض قلم کی جنبش سے کسی پڑوسی ملک کی زمین پر قبضہ جائز قرار نہیں پاتا۔
انہوں نے کہا کہ "آزاد دنیا" کرائمیا پر روس کے قبضے اور یوکرین کی خود مختاری کے خلاف روسی اقدامات کو قبول نہیں کرے گی۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ روسی اقدامات کے مقابلے پر دنیا کے "آزاد ممالک" متحد ہیں اور اگر روس کی اشتعال انگیزیاں جاری رہیں تو اس کے نتیجے میں ماسکو حکومت ہی کی تنہائی اور مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں منعقد ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ قوموں اور ملکوں کو اپنی منزل کے اختیار کا حق حاصل ہے اور یوکرین کے لوگوں سے یہ حق کوئی نہیں چھین سکتا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کو ہر صورت ان افراد کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا جو "آزادی" کی تلاش میں سرگرم ہیں۔
'نیٹو' اتحادیوں کےساتھ امریکہ کی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ 'نیٹو' ممالک متحد ہیں اور ان میں سے کسی ایک پر بھی حملہ، سب پر حملہ تصور ہوگا۔
انہوں نے کہ 'نیٹو' کے رکن ممالک کی آزادی، امریکہ کی آزادی کےمترادف ہے جس کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔
امریکی صدر نے سوویت یونین کی سابق ریاستوں اور نیٹو کے موجودہ ارکان - پولینڈ، ایسٹونیا، لیٹویا، لتھوانیا اور رومانیہ - کا نام لے کر کہا کہ انہیں کبھی تنہائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ ان کے یہ دعوے محض الفاظ نہیں بلکہ یہ دنیا کے "مضبوط ترین اتحاد" اور امریکی فوج، جو ان کے بقول تاریخ کی طاقت ور ترین فوج ہے، کی جانب سے ان ممالک کے تحفظ کی یقین دہانی ہے جس پر کسی کو شبہہ نہیں ہونا چاہیے۔
تقریب سے قبل صدر اوباما نے وارسا میں یوکرین کے نومنتخب صدر پیٹرو پوروشینکو کے ساتھ ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے یوکرین کی فوج کے لیے 50 لاکھ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا تھا۔
تقریب کے بعد صدر اوباما برسلز روانہ ہوگئے ہیں جہاں وہ 'گروپ آف سیون' ممالک کے سربراہان کے ساتھ عشائیے میں شریک ہوں گے۔
دنیا کے سات بڑے صنعتی ممالک کے نمائندہ گروپ کے سربراہان کے مابین بات چیت کا سلسلہ جمعرات کو بھی جاری رہے گا۔
صدر اوباما اس تین ملکی دورۂ یورپ کے آخری مرحلے میں جمعے کو فرانس پہنچیں گے جہاں وہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازی افواج پر اتحادیوں کے حملے کے 70 سال مکمل ہونے پر منعقد کی جانے والی تقریب سے خطاب کریں گے۔
اس تقریب میں کئی دیگر مغربی ممالک کے سربراہان کے علاوہ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن اور یوکرین کے نومنتخب صدر پوروشینکو بھی شریک ہورہے ہیں۔
یوکرین میں روس نواز حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا جب روس، یوکرین اور امریکہ کے صدور کا آمنا سامنا ہوگا۔
تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی و روسی صدور اور روسی اور یوکرینی صدور کے درمیان اس موقع پر کوئی ملاقات تاحال طے نہیں پائی ہے۔
بدھ کو پولینڈ میں 'یومِ آزادی' کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما کا کہنا تھا کہ بڑی طاقتوں کو چھوٹے ممالک پر دھونس جمانے یا بندوق کی نوک پر ان پہ اپنی مرضی تھوپنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔
صدر اوباما نے یوکرین کے علاقے کرائمیا کے روس کے ساتھ الحاق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ محض قلم کی جنبش سے کسی پڑوسی ملک کی زمین پر قبضہ جائز قرار نہیں پاتا۔
انہوں نے کہا کہ "آزاد دنیا" کرائمیا پر روس کے قبضے اور یوکرین کی خود مختاری کے خلاف روسی اقدامات کو قبول نہیں کرے گی۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ روسی اقدامات کے مقابلے پر دنیا کے "آزاد ممالک" متحد ہیں اور اگر روس کی اشتعال انگیزیاں جاری رہیں تو اس کے نتیجے میں ماسکو حکومت ہی کی تنہائی اور مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں منعقد ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ قوموں اور ملکوں کو اپنی منزل کے اختیار کا حق حاصل ہے اور یوکرین کے لوگوں سے یہ حق کوئی نہیں چھین سکتا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کو ہر صورت ان افراد کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا جو "آزادی" کی تلاش میں سرگرم ہیں۔
'نیٹو' اتحادیوں کےساتھ امریکہ کی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ 'نیٹو' ممالک متحد ہیں اور ان میں سے کسی ایک پر بھی حملہ، سب پر حملہ تصور ہوگا۔
انہوں نے کہ 'نیٹو' کے رکن ممالک کی آزادی، امریکہ کی آزادی کےمترادف ہے جس کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔
امریکی صدر نے سوویت یونین کی سابق ریاستوں اور نیٹو کے موجودہ ارکان - پولینڈ، ایسٹونیا، لیٹویا، لتھوانیا اور رومانیہ - کا نام لے کر کہا کہ انہیں کبھی تنہائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ ان کے یہ دعوے محض الفاظ نہیں بلکہ یہ دنیا کے "مضبوط ترین اتحاد" اور امریکی فوج، جو ان کے بقول تاریخ کی طاقت ور ترین فوج ہے، کی جانب سے ان ممالک کے تحفظ کی یقین دہانی ہے جس پر کسی کو شبہہ نہیں ہونا چاہیے۔
تقریب سے قبل صدر اوباما نے وارسا میں یوکرین کے نومنتخب صدر پیٹرو پوروشینکو کے ساتھ ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے یوکرین کی فوج کے لیے 50 لاکھ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا تھا۔
تقریب کے بعد صدر اوباما برسلز روانہ ہوگئے ہیں جہاں وہ 'گروپ آف سیون' ممالک کے سربراہان کے ساتھ عشائیے میں شریک ہوں گے۔
دنیا کے سات بڑے صنعتی ممالک کے نمائندہ گروپ کے سربراہان کے مابین بات چیت کا سلسلہ جمعرات کو بھی جاری رہے گا۔
صدر اوباما اس تین ملکی دورۂ یورپ کے آخری مرحلے میں جمعے کو فرانس پہنچیں گے جہاں وہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازی افواج پر اتحادیوں کے حملے کے 70 سال مکمل ہونے پر منعقد کی جانے والی تقریب سے خطاب کریں گے۔
اس تقریب میں کئی دیگر مغربی ممالک کے سربراہان کے علاوہ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن اور یوکرین کے نومنتخب صدر پوروشینکو بھی شریک ہورہے ہیں۔
یوکرین میں روس نواز حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا جب روس، یوکرین اور امریکہ کے صدور کا آمنا سامنا ہوگا۔
تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی و روسی صدور اور روسی اور یوکرینی صدور کے درمیان اس موقع پر کوئی ملاقات تاحال طے نہیں پائی ہے۔