صدر براک اوباما بھارت کا تین روزہ دورہ مکمل کرکے اپنی اگلی منزل انڈونیشیا پہنچ چکے ہیں۔ لیکن وہ اپنے پیچھے برِ صغیر کے سیاسی و صحافتی حلقوں میں خاصی ہلچل چھوڑ گئے ہیں۔
اوباما کے دورہ بھارت کو جہاں بھارتی و امریکی میڈیا کے علاوہ پورے یورپی میڈیا میں بھرپور کوریج ملی ، وہیں پاکستان میں بھی اس دورے کا خاصی باریک بینی سے جائزہ لیا گیا۔ اوباما کے تین روزہ قیامِ بھارت کے دوران پاکستان کے خاصے آزاد اور بے باک نیوز ٹی وی چینلز کے تقریباً تمام اہم ٹاک شوز نے ہندوستان میں ان کی مصروفیات اور بیانات کو اپنا موضوعِ بحث بنایا۔
پاکستان کے قومی اخبارات نے اوباما کے دورہ ہند کی مصروفیات کو اپنی شہ سرخیوں میں جگہ دی اور ملکی میڈیا کی جانب سے ان کے اس دورے کے پاک بھارت تعلقات اور خطے کی سیاست پہ اثرات کا بھی تجزیہ کیا گیا۔
تاہم اوباما کی جانب سے اپنے دورہ بھارت کے دوران پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اہم ترین وجہ نزاع یعنی مسئلہ کشمیر کے محض سرسری تذکرہ پر اکتفا کرنے کے عمل نے پاکستانی تجزیہ کاروں کی اکثریت کو خاصا برانگیختہ کیا ہے۔
غالباً یہی سبب ہے کہ پاکستانی میڈیا میں اوباما کے دورہ بھارت کی کوریج پہ منفی رنگ غالب رہا اور پاکستانی اخبارات میں لکھے گئے اداریوں اور کالمز اور نیوز ٹی وی چینلز پہ نشر کیے گئے تجزیوں کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپنے اس دورے کی بدولت صدر اوباما کو بھارت میں رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرنے میں تو شاید مدد ملی ہو، لیکن امریکہ کی دہشت گردی کی خلاف جاری جنگ میں "اہم ترین اتحادی اور فرنٹ لائن پارٹنر" قرار دئیے جانے والے پاکستان میں ان کے اور امریکہ کے ارادوں کے حوالے سے موجود عدم اعتماد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
پاکستانی میڈیا میں صدر اوباما کی جانب سے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کیلئے بھارت کی حمایت کیے جانے کے بیان کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ ایک جانب جہاں کئی نیوز ٹی وی چینلز نے اس موضوع پر مذاکروں کا اہتمام کیا وہیں تمام پاکستانی اخبارات نے اس خبر کو شہ سرخی کے طور پر شائع کیا۔
صدر اوباما کی جانب سے پاکستان کے ساتھ موجود مسائل بشمول مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت پر خاطر خواہ دباؤ نہ ڈالنے اور اس ضمن میں امریکی کردار کو دونوں ممالک کی مرضی سے مشروط کرنے پر بھی پاکستانی اخبارات نے خاصی "ناراضگی" کا اظہار کیا ہے۔
اردو روزنامہ "ایکسپریس" نے صدر اوباما کے دورے پر منگل کے روز شائع کیے گئے اپنے اداریے میں پاک بھارت تنازعات کے حل کے سلسلے میں صدر اوباما کے طرزِ عمل کو معذرت خواہانہ قرار دیتے ہوئے امریکہ پر جانبداری برتنے کا الزام عائد کیا ہے۔
اخبار نے لکھا ہے کہ اپنے حالیہ دورے میں بھارت پر اپنی نوازشات کی مزید بارش کرکے اور دونوں ملکوں کے مابین مسائل کے حل کے حوالے سے کنی کترا کر امریکہ نے پاکستانی عوام میں موجود اس احساس کو مزید گہرا کردیا ہے کہ امریکہ پاکستان اور بھارت کے معاملات میں جانبداری برت رہا ہے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ"اگر امریکی انتظامیہ نے پاکستان اور بھارت کے حوالے سے اپنی پالیسیاں حالات کے تقاضوں کے مطابق، مبنی بر انصاف، غیر جانبدارانہ اور معتدل نہ بنائیں تو اس سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات بہتر ہونے کے بجائے مزید کشیدگی کا شکار ہوجائیں گے"
اردو روزنامہ "جنگ" نے صدر اوباما کے بھارتی پارلیمنٹ سے خطاب پر کیے گئے تجزیے کو "اوباما کی پارلیمنٹ میں تقریر بھارت کی طرف واضح جھکاؤ کی آئینہ دار تھی" کی سرخی کے تحت اپنے صفحہ اول پر شائع کیا ہے۔
تجزیے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی حمایت سے بھارت کو عالمی سطح پر آگے بڑھنے، اپنے اقتصادی اہداف میں کامیابی حاصل کرنے اور اپنی ملٹری مائٹ میں مزید اضافہ کرکے خطے میں بالادستی حاصل کرنے کے عزائم کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی جبکہ پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہوگا۔
تجزیے کے مطابق "بھارتی حکمرانوں اور سیاستدانوں کے علاوہ عوام کو اوباما کے بیان سے قرار آگیا ہے جبکہ پاکستانی عوام کی پریشانی میں اضافہ ہوگیا ہے"
اخبار نے اپنے اداریے میں صدر اوباما کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر مشروط امریکی ثالثی کی پیشکش پر بھی سخت تنقید کی ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ"اس سلگتے ہوئے مسئلے سے پہلو تہی کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی عالمی ذمہ داریوں سے بھاگ رہے ہیں۔۔۔ بڑی طاقتوں کو افغانستان یا عراق پر حملہ کرنا ہو تو کہا جاتا ہے کہ یہ ہماری عالمی ذمہ داریوں کا حصہ ہے۔ ہزاروں بے گناہ لوگ مار دئیے جاتے ہیں اور اپنا اور دوسروں کا اربوں ڈالر کا نقصان کردیا جاتا ہے۔ مگر جب بات کشمیری عوام کے حقِ خود ارادی کی ہو تو صاف پہلو تہی اختیار کی جاتی ہے"
اداریے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ پاکستان کو نیٹو سے باہر اپنا سب سے بڑا اتحادی قرار دیتا ہے مگر اس کے مفادات کو قرار واقعی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اخبار نے امریکہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بھارت کو خوش کرنے کی کوشش میں اتنا آگے نہ جائے کہ پاکستان کے مفادات کو خطرات لاحق ہوجائیں۔
پاکستان کے نیوز چینلز کے ٹاک شوز میں بھی اوباما کی جانب سے سلامتی کونسل کی مستقل نشست کیلئے بھارت کی حمایت کے اعلان اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت پر دباؤ نہ ڈالنے پر خاصا ہنگامہ مچا ہوا ہے اور بیشتر تجزیہ کار اسے پاکستان کی سفارتی شکست اور امریکہ کی بے وفائی سے تعبیر کررہے ہیں۔
تاہم صدر اوباما کی جانب سے بھارتی حمایت کے اعلان اور سرحد پار دہشت گردی کے حوالے اس کے موقف کی پذیرائی پر بھارتی سیاسی، سفارتی اور صحافتی حلقوں کی خوشی دیدنی ہے۔