مردم شماری پر اعتراضات; 'کراچی میں 32 ہزار عمارتوں کو شمار نہیں کیا گیا'

پاکستان میں ساتویں مردم شماری کے دورانیے میں جہاں چوتھی بار توسیع دی گئی ہے وہیں اس پرسیاسی جماعتوں کے اعتراضات بھی کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔

یہ اعتراضات ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سامنے آئے ہیں جہاں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ شہر میں مردم شماری پوری نہیں کی گئی جس کا نتیجہ وسائل کی کم دستیابی کی صورت میں نکلے گا۔

'کراچی میں 32 ہزار رہائشی عمارتوں کو شمار نہیں کیا گیا'

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینئر رہنما مصطفیٰ کمال کہتے ہیں کہ مردم شماری جس طرح کی جارہی ہے وہ ان کی جماعت کے لیے قابلِ قبول نہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ خود ادارہ شماریات کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کراچی میں 32 ہزار ایسی رہائشی عمارتیں ہیں جن میں کئی گھرانوں کو مردم شماری میں شامل نہیں کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ادارہ شماریات کے مطابق کراچی میں 29 لاکھ گھرانے ہیں جب کہ شہر میں 34 لاکھ بجلی کے میٹرز رہائشی علاقوں میں نصب ہیں۔ اُن کے بقول ہزاروں ایسے گھر بھی ہیں جہاں بجلی کے میٹرز نصب نہیں ہیں۔ لہذٰا تقریباً چھ لاکھ گھروں کو کم رجسٹرڈ کیا گیا ہے۔

مصطفیٰ کمال کا مزید کہنا تھا کہ کراچی اور حیدرآباد میں ایک بلاک میں اوسطاً 187 مکانات ہیں جب کہ صوبے کے دیگر ڈویژنز میں یہ تعداد اوسطاً 250 تک ہے۔ یوں صرف کراچی میں 16 ہزار بلاکس میں صرف 63 مکانات کو گنا گیا۔

مصطفیٰ کمال نے دعویٰ کیا کہ ہر گھرانے میں تین سے پانچ لوگ رہائش پذیر ہیں تو تقریباً 53 لاکھ آبادی کم گنی گئی۔ یہی نہیں بلکہ ملک بھر میں ایک شخص پر مشتمل گھرانوں کی شرح 1.5 فی صد ہے جب کہ کراچی میں یہ شرح ساڑھے نو فی صد ہےجو کہ حیران کن ہے۔

اُن کے بقول اب تک کے سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں لاڑکانہ میں 25 فی صد اور کراچی میں صرف 6 فی صد کے حساب سے آبادی بڑھی ہے۔

ایم کیو ایم رہنما کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اور وفاقی وزرا سے ہونے والی کئی ملاقاتوں میں مردم شماری پر اٹھائے گئے ان سوالات اور خدشات کو کھلے ذہن سے سنا اور وہ پراُمید تو ہیں کہ ان مسائل کے حل کے لیے کوئی حل تلاش کیا جائے گا۔ لیکن ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ وفاقی حکومت ان مسائل کو کیسے حل کرپاتی ہے۔


'مردم شماری سے قبل کی گئی خانہ شماری میں دھاندلی کی گئی'

دوسری جانب اسی قسم کے اعتراضات جماعتِ اسلامی کی جانب سے بھی زور و شور سے اٹھائے جارہے ہیں۔

جماعت اسلامی نے اس سلسلے میں احتجاج کی کال بھی دے رکھی ہے۔

امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ مردم شماری سے قبل خانہ شماری صوبائی حکومت کے ماتحت انتظامیہ کے تحت کی گئی جس میں جان بوجھ کر گھروں کو کم گنا گیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ خانہ شماری میں بڑی بڑی عمارتیں اور تقریبا 40 سے 50 فی صد آبادی کو شمار ہی نہیں کیا گیا۔ نادرا کے ڈیٹا کے مطابق بھی کراچی کی آبادی ایک کروڑ 90لاکھ ہے حالاں کہ کراچی کی آبادی کسی صورت بھی تین،ساڑھے تین کروڑ سے کم ہو ہی نہیں سکتی۔

حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ بجلی اور گیس کے میٹرز اور اس کے صارفین کی تعداد سے بھی کراچی کی آبادی تین کروڑ سے زائد بنتی ہے۔

اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ کراچی میں جتنے بھی لوگ رہتے ہیں گنے جائیں،کراچی میں جو رہتا ہے اس یہیں شمار کیا جائے۔مستقل پتوں کی بنیاد پر ڈیٹا فائنل نہ کیا جائے۔

SEE ALSO: پاکستان میں پہلی ڈیجیٹل مردم شماری پر اعتراضات کیا ہیں؟


حافظ نعیم الرحمان کے بقول جب ملک بھر سے روزگار یا کسی اور مقصد کے لیے لوگ کراچی میں آکر رہتے ہیں تو وہ یہیں کا انفراسٹرکچر بھی استعمال کرتے ہیں تو ان کو شمار یہاں کیوں نہیں کیا جا تا؟

اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگ بڑی تعداد میں یہاں رہتے ہیں اور ان کا مستقل پتا ان کے اپنے آبائی علاقے کا ہی ہوتا ہے اسی طرح پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی بڑی تعداد میں لوگ کراچی میں مقیم ہیں، لہذٰا انہیں بھی کراچی کی مردم شماری میں ہی درج کیا جانا چاہیے۔

حافظ نعیم الرحمان نے الزام لگایا کہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی کم ظاہر کرنے کے پیچھے حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی سندھ کی آبادی کی بات تو کرتی ہے لیکن کراچی کی آبادی کم کرنے پر کچھ نہیں بولتی، اندرون سندھ کی آبادی بڑھا دی جاتی ہے لیکن کراچی کی آبادی کم کر کے اپنی جعلی اکثریت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔

خدشات دور تو کیے گئے لیکن اب بھی ہم مطمئن نہیں: وزیر اعلیٰ سندھ

ادھر صوبے میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی اور صوبے میں قوم پرست جماعتوں کا بھی مؤقف ہے کہ مردم شماری میں صوبے کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ جب یہ مردشماری شروع ہوئی تو اُنہوں نے پہلے دن سے ہی اس پر تحفظات ظاہر کیے تھے جنہیں دُور نہیں کیا گیا۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ اس وقت بھی پورے پاکستان میں سندھ کے لوگ ایک گھرانے کے حساب سے بھی بہت کم شمار کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اعتراضات ابھی تک اپنی جگہ ہیں جس پر ہم یہ معاملہ کابینہ میں اٹھائیں گے اور کابینہ اس غلط مردم شماری کو ہرگز تسلیم نہیں کرے گی اور نہ ہی اس کی حمایت کرے گی۔


"سوچی سمجھی سازش کے تحت آبادی کم گنی جا رہی ہے"

قوم پرست جماعت سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر سید زین شاہ کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے نام پر سندھ کے ساتھ امتیازی سلوک برداشت نہیں کیا جائے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سندھ کے حقوق غصب کرنے اور وفاق کو دوام بخشنے کے لیے سندھ کی آبادی کو کم شمار کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت غیر قانونی تارکین کو سندھ میں مستقل آباد کرنا چاہتی ہے اور ڈیجیٹل مردم شماری کے ذریعے غیر ملکیوں کو رجسٹرڈ کرا کے ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہروں کی آبادی کو کم کیا جا رہا ہے جو سندھ کے ہر شہری کے لیے باعثِ تشویش امر ہے۔

سید زین شاہ کے بقول کراچی کی آبادی کو کم دکھانے سے مجموعی طور پر سیاسی اور معاشی نقصان سندھ کا ہو گا۔ اگر ادارہ شماریات نے کراچی کی آبادی کو جان بوجھ کر کم کرنے یا ہیر پھیر کی سازش کی اور اعداد و شمار کو پورا نہیں گنا گیا تو ہم اس کی مخالفت کریں گے۔

"مردم شماری درست انداز میں کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کررہے ہیں'

دوسری جانب ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ سینسز مانیٹرنگ کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کے اعتراضات کو سنا اور ان کے حل کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی اور جدت کے استعمال سے وہ مردم شماری کو ٹھیک، معتبر اور شفاف بنانے کے لیے ہر قسم کے اقدامات کررہی ہے۔


'مسئلہ مردم شماری کے لیے اختیار کیے گئے طریقۂ کار کا ہے'

شہری امور کے ماہر اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے تحت کام کرنے والے ادارے کراچی اربن لیب میں محقق محمد توحید کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ مردم شماری کے طریقہ کار پر اٹھائے جانے والے سوالات کا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں مردم شماری کے دو طریقے رائج ہیں۔ ایک' ڈی فیکٹو' اور دوسرا' ڈی جورے۔' ڈی فیکٹو طریقہ کار کے تحت ایک خاص مدت میں جو شخص جہاں ہے اسے وہیں کا شمار کرکے مردم شماری کا عمل مکمل کیا جاتا ہے۔

اُن کے بقول دوسرا طریقۂ کار یعنی 'ڈی جورے' کے تحت کسی بھی شخص کو وہیں شمار کیا جاتا ہے جہاں کے وہ مستقل رہائشی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی موجودہ مردم شماری دوسرے طریقۂ کار کے تحت کی جا رہی ہے جس سے کراچی میں رہنے والے وہ لوگ جو چھ ماہ سے کم عرصے کے لیے یہاں مقیم ہیں تو انہیں ان کے آبائی علاقوں میں گنا جائے گا یہاں نہیں۔ یعنی انہیں ان کے مستقل پتوں پر ہی گنا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے کہ کوئی شخص جس کا مستقل پتا تو ملک کے کسی اور علاقے کا ہو اور وہ کراچی میں رہائش پذیر ہو، وہ واقعی چھ ماہ کے بعد کراچی سے چلا جائے گا اور ملک کا کوئی قانون یا آئین کسی بھی شہری کو اس بات کے لیے مجبور بھی نہیں کرتا۔

اُن کے بقول ایسے میں وہ فیملیز یا فرد جو رہتے تو کراچی میں ہیں، صحت، پانی، بجلی، گیس، سڑکیں اور دیگر سہولیات اور انفراسٹرکچر بھی شہر کا استعمال کرتے ہیں مگر ان کا اندراج یہاں نہ ہونے کی صورت میں وسائل کی تقسیم میں ان کا حصہ شامل نہیں ہوگا۔

محمد توحید کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو تشویش یہ ہے کہ ایسے میں پانی کا کوٹہ، اسمبلی کی نشستیں، فنانس کمیشن ایوارڈ اور دیگر وسائل میں کراچی کا حصہ کم رہ جائے گا جب کہ مسائل بڑھتے چلے جائیں گے۔

انہوں نے مزید نشاندہی کی کہ کراچی کے علاوہ ملک بھر میں کوئی ایسا شہر موجود نہیں جہاں لوگوں کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت ہو یعنی دوسرے الفاظ میں وہاں لوگوں کو روزگار، صحت، تعلیم، اور دیگر سستی اور معیاری سہولیات میسر ہوں۔

محمد توحید کے بقول کراچی میں ایسے بہت سے خاندان رہتے ہیں جو موسمی صورتِ حال میں کچھ ماہ یہاں رہتے ہیں اور کچھ ماہ اپنے گاؤں میں رہائش اختیار کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مردم شماری کرنے والے عملے کی مناسب تربیت کا فقدان اور پھر کچھ تیکنیکی مسائل بھی شفاف مدم شماری کی راہ میں رکاوٹ بنے ہیں جنہیں دور کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے اقدامات تو کیے گئے ہیں۔ لیکن بہت سے دیگر اعتراضات کو دور کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جانا بھی ضروری ہے۔

مردم شماری پر اعتراضات پہلی بار نہیں اٹھائے جا رہے بلکہ 2017 میں ملک میں ہونے والی چھٹی مردم شماری کے نتائج منظوری کے وقت صوبہ سندھ میں برسر اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی اور وفاقی حکومت میں اتحادی متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے ایسے ہی اعتراضات سامنے آئے تھے۔

مشترکہ مفادات کونسل جس میں صوبے اور وفاق کی نمائندگی ہوتی ہے،نے نتائج مشروط طور پر قبول کرتے ہوئے آئندہ مردم شماری عام انتخابات سے قبل کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن مردم شماری کرانے کے ذمہ دار ادارے ادارہ شماریات کی جانب سے شفاف اور ڈیجیٹل مردم شماری کے دعوؤں کے باوجود اس مردم شماری پر بھی تقریباً پہلے جیسے ہی اعتراضات سامنے آرہے ہیں۔