رائے عامہ کےایک حالیہ جائزے سےظاہر ہواہےکہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کےبعد امریکی صدر براک اوباما کی عوام میں مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور یہ شرح 47سے بڑھ کر56فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ صدارتی انتخابات میں ابھی ایک سال سےزیادہ کا عرصہ باقی ہے اس لیے یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ اس کا اثر انتخابات پر بھی پڑے گا یا نہیں۔
القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے چند روز بعد گزشتہ روز صدر براک اوبامانے نیویارک میں گراؤنڈ زیرو کا دورہ کیا جہاں القاعدہ نے 2001میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کیا تھا۔
چند روز پہلے اوسامہ کے خلاف کامیاب آپریشن کے بعد ان کی دور صدارت کا وہ ڈرامائی لمحہ آیا تھا جس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔
اسامہ کی ہلاکت کے اعلان کے بعد ہزاروں امریکیوں نے وائٹ ہاؤس کے سامنے ، نیویارک میں گراؤنڈ زیرو اور کئی اور جگہوں پر خوشیوں کا اظہار کیا۔ حزب اختلاف کی جماعت ری پبلیکن پارٹی کے اراکین نے بھی ڈیموکریٹس کے ساتھ مل کر صدر اور اس آپریشن میں حصہ لینے والے خصوصی دستوں کی تعریف کی ۔ ان میں سابق نائب صدر ڈک چینی بھی شامل تھے جو عموماً صدر اوباما پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ موجودہ انتظا میہ واضح طور پر اس کامیابی کے سہرے کی مستحق ہے ۔
پچھلے کچھ عرصے سے صدر اوباما کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی تھی مگر کونیا پیک یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر پیٹر براؤن کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کے خلاف کامیاب آپریشن کے بعد ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہناتھا کہ اب صدر کی انتخابی مہم کے حوالے سے جو بڑا سوال ہے وہ یہ کہ سیاسی ساکھ میں بہتری کی شرح کتنی زیادہ ہے اور وہ کب تک رہے گی۔
کچھ تجزیہ نگاروں جیسے جونز ہاپکنز یونیورسٹی سے وابستہ رابرٹ گٹ مین کا خیال ہے کہ بن لادن کی ہلاکت کا صدارتی انتخابات پر بہت زیادہ اثر ہوگا۔
مگر رائے عامہ کے جائزے کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ایسا سوچنا قبل از وقت ہے۔
گٹ مین کہتے ہیں کہ اصل سوال یہ ہے کہ آیا اس کامیابی کی بنا پر لوگ ان کے معاشی بحران سے نمٹنے اور بجٹ میں خسارے میں کمی لانے کے بارے میں پالیسیوں کو پسند کریں گے یا نہیں۔
بن لادن کی ہلاکت کے بعد ری پبلیکن پارٹی کے ایسے رہنماؤں نے بھی صدر اوباما کی تعریف کی ہے جو آئندہ انتخابات میں ان کے مد مقابل ہوگی جیسے ریاست میساچوسٹس کے سابق گورنر مٹ رومنی اور ریاست مینی سوٹا کے سابق گورنر ٹم پولنٹی ۔