پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی شہر کراچی میں آج نماز جمعہ کے بعد مذہبی جماعتوں نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے خلاف مختلف مقامات پرمظاہرے کئے۔
سب سے بڑا مظاہرہ ایم اے جناح روڈ پرہوا جبکہ جماعت اسلامی کی جانب سے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج کیا گیا۔ ایبٹ آباد، لاہور، کوئٹہ اور پشاور میں بھی اسامہ بن لادن کی حمایت میں جمعیت علمائے اسلام (نظریاتی گروپ) سمیت دیگر جماعتوں نے مظاہرے کیے اور سڑکیں بلاک کر دیں ۔
اس موقع پر مقررین نے اسامہ بن لاد ن کو دہشت گردکے بجائے 'عظیم مجاہد' قرار دیا ۔ حیدر آباد، سکھر، سانگھڑ سمیت سندھ کے بیشتر شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اس دوران کئی شہروں میں اسامہ کی غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی گئی۔ مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر اسامہ کے حق میں نعرے درج تھے۔
ان مظاہروں کو دیکھ کر مبصرین کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستانی قوم ایک اور معاملے پر دو دھڑوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک جانب تو اسامہ بن لادن کی موت کو امن و امان کیلئے انتہائی خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے تودوسری جانب ہلاکت کے خلاف شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔ یہ اختلافات کوئی نہیں بات نہیں۔ جنوری 2011ء میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں ہلاکت اور اس کے بعد ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر قوم دو دھڑوں میں پہلے ہی تقسیم تھی کہ اب اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے نئے واقعہ نے ایک بارپھر پاکستان کے باشندوں کی سوچ تقسیم کر دی ہے۔
گزشتہ چار دہائیوں سے اس ملک کا عام آدمی یہ سمجھ نہیں پا رہا کہ ایک قوت جسے طالبان، جہادی، عسکریت پسند، جنگجو ، القاعدہ اور مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے اس کے اقدامات درست ہیں یا غلط؟ یہ قوت اپنے ہی لوگوں کو مار کر کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے؟ اس قوت کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما ہیں اور انہیں کون امداد فراہم کرتا ہے؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر ہر دور میں سیاسی و مذہبی جماعتوں نے دل کھول کر عوام کی حمایت حاصل کی اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لئے انہوں نے عوام کے درمیان اتنے فاصلے بڑھا دیئے کہ آج یہاں کوئی شخص مر جائے تو عام آدمی کیلئے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوتا ہے کہ اسے شہید کہا جائے یا ہلاک۔ اسامہ کی ہلاکت کے معاملے پرمذہبی اور جہادی تنظیموں کا رد عمل کھل کر سامنے آ رہا ہے ۔
عوامی جائزوں کے مطابق اسامہ کی ہلاکت کے بعد عوام کی اکثریت خود کو محفوظ تصور کرتی ہے۔ پاکستان کے صدر و و زیر اعظم سمیت اعلیٰ قیادت نے اسے انتہائی اہم کامیابی قرار دیا۔ اسامہ بن لادن کو لاکھوں جانوں کے ضیاع کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے اور اس کی موت کو مکافات عمل قرار دیا جا رہا ہے۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکی کمانڈوز نے ایبٹ آباد میں جس مہارت سے اسامہ کے خلاف آپریشن کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے کیونکہ اس کارروائی میں نہ تو کوئی معصوم جان ضائع ہوئی اور نہ ہی کسی عام آدمی کا مالی نقصان ہوا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اسامہ کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پاکستان کے لئے بہت بڑا چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک جانب تو اسے مذہبی اور جہادی تنظیموں سے نمٹنا ہے تو دوسری جانب القاعدہ کی جانب سے دہشت گردی کے بڑے واقعات کی صورت میں رد عمل خارج از امکان نہیں ۔