بین الاقوامی قانون کے ماہر، احمر بلال صوفی نے کہا ہے کہ ایبٹ آباد میں امریکی کارروائی میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے معاملے پر ابھی تک اقوام ٕمتحدہ کی طرف سے کوئی بیان نہ آنا ’ اہمیت کا حامل معاملہ ہے۔‘
جمعے کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ ’ اِس معاملےمیں ابھی تک کوئی واضح پوزیشن سامنے نہیں آئی۔ خصوصی طور پر یورپی ملکوں میں ابھی یہ بحث جاری ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت تیسرے ملکوں میں مداخلت کا معاملہ کہاں تک جائز ہے۔‘
اُنھوں نے کہا کہ ابھی کئی مبصرین ، ماہرین اوربین الاقوامی قانون داں مکمل تفصیلات کے انتظار میں ہیں کہ یہ اقدام قانونی تھا یا نہیں ؟
اُن کے الفاظ میں اگر پاکستان کی طرف سے اجازت آگئی کہ آپریشن ہو پھر تو یہ کارروائی قانونی ہوگی لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو پھر آپریشن کی قانونی پوزیشن متنازع ہوجاتی ہے۔
احمر بلال صوفی سے ایبٹ آباد میں امریکی کارروائی کی قانونی حیثیت کے بارے میں معلوم کیا گیا تھا ۔اُنھوں نے کہا کہ اِس معاملے میں پیش آنے والے واقعات کو تین طرح سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک ہے اسامہ کو پکڑنے کا، دوسرے اُن کو مارنے کا اور تیسرے پاکستانی سرزمین پر غیر ملکی ہیلی کاپٹروں کے داخل ہونے کا، ’اور، إِن تینوں کی قانونی حیثیت مختلف ہے۔‘
اسامہ کو پکڑنے سے متعلق، اُنھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی کئی قراردادیں بشمول چیپٹر سات موجود ہے جس میں اسامہ کا باربار ذکر آیا ہے ۔ یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسامہ جس ملک میں بھی پایا جائے اُسے امریکہ کے حوالے کردیا جائے، بغیر اِس شرط کے کہ حوالگی کا باہمی معاہدہ موجود ہے یا نہیں۔
اسامہ کو پکڑنے کے نکتے پر اُنھوں نے کہا کہ اِس بارے میں بین الاقوامی سطح پر جو انسانی حقوق کے گروپ ہیں اُن کا نقطہٴ نظر یہ ہے کہ جب یہ آپشن موجود تھا کہ اُسے گرفتار بھی کیا جاسکتا تھا تو پھر اُسے گرفتار کیا جانا چاہیئے تھا تاکہ اُن پر مقدمہ چلتا۔
اُن کے بقول، تیسرے یہ کہ اس بات پر خاصی سنجیدگی کے ساتھ بحث چل پڑی ہے کہ جب متعلقہ ریاست کی اجازت نہ ہو کسی تیسرے ملک میں مداخلت کرنا اقتدارِ اعلیٰ کی خلاف ورزی تصور ہوگی۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے: