بھارت میں ایک طرف جہاں دارالحکومت نئی دہلی اور ممبئی سمیت متعدد شہروں اور قصبوں میں لاک ڈاؤن کی بہت سی پابندیوں میں نرمی سے عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے، وہیں جمعرات کو ایک دن میں کرونا سے ہونے والی اموات میں ایک دم اضافے کی وجہ سے لوگ تشویش میں بھی مبتلا ہو گئے ہیں اور وبا سے ہونے والے ہلاکتوں کے سرکاری اعداد و شمار پر پھر سے سوال اٹھنے لگے ہیں۔
بھارت کی وزارتِ صحت کی جانب سے جمعرات کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں کرونا سے ہونے والی اموات کی تعداد 6148 رہی جو کہ وبا کے آغاز سے لے کر اب تک کی سب سے زیادہ یومیہ تعداد ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بھارت میں کرونا کے 94 ہزار 52 نئے کیسز بھی سامنے آئے ہیں۔
جمعرات کو کرونا سے ہونے والی اموات کی ریکارڈ تعداد رپورٹ ہونے کے بعد ایک بار پھر یہ تنازع موضوعِ بحث ہے کہ بھارت میں کرونا سے ہونے والی اموات کی اصل تعداد چھپائی جا رہی ہے۔ بعض حلقے اس شبہے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ وبا سے ہونے والی ہلاکتوں کی اصل تعداد حکومتی اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔
امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے بھی گزشتہ دنوں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارت میں کرونا سے ہونے والی اموات کے حقیقی اعداد و شمار حکومت کی بتائی جانے والی تعداد سے 10 گنا تک زیادہ ہیں۔
حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں اب تک کرونا سے تین لاکھ 59 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
بہار میں اموات کے اعداد و شمار پر نظر ثانی
بھارت میں کرونا سے ہونے والی یومیہ ہلاکتوں میں تازہ اضافہ بہار حکومت کی جانب سے ریاست میں ہونے والی اموات پر نظرثانی کی وجہ سے ہوا ہے۔
بہار میں وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار کی حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ ریاست میں کرونا سے 5500 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ لیکن اب حکومت کا کہنا ہے کہ مزید 3951 ہلاکتوں کے ساتھ بہار میں کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد تعداد 9429 ہو گئی ہے۔
بہار میں مختلف حلقوں کی جانب سے یہ شکایت کی جارہی تھی کہ ریاستی حکومت کرونا سے ہونے والی اموات کی تعداد چھپا رہی ہے جس کے بعد پٹنہ ہائی کورٹ نے اموات کے اعداد و شمار کی جانچ کا حکم دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹوں کے مطابق عدالتی حکم کے بعد تین ہفتوں کی جانچ سے یہ معلوم ہوا کہ بہار میں جہاں مارچ 2020 سے مارچ 2021 کے درمیان 1600 افراد ہلاک ہوئے تھے وہیں یکم اپریل سے سات جون 2021 کے درمیان 7775 افراد ہلاک ہوئے۔ پہلے کے مقابلے میں یہ تعداد چھ گنا زیادہ ہے۔
عدالت کے حکم پر ریاست بہار کے 38 اضلاع میں اموات کے اعداد و شمار کی جانچ کی گئی تھی جس کے بعد ریاستی محکمۂ صحت کا کہنا ہے کہ اموات میں 72 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ ہلاکتیں پٹنہ میں ہوئی ہیں جہاں کرونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد 2303 بتائی جاتی ہے۔ لیکن میڈیا رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ پٹنہ میں حکومت کے زیر انتظام تین شمشانوں کے ریکارڈ کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 3243 ہے۔
بہار کے محکمۂ صحت کے پرنسپل سیکریٹری پرتیائے امرت کا کہنا ہے کہ اگر پڑوسی اضلاع کے مریض بھی پٹنہ میں ہلاک ہوئے تو ان کا شمار بھی پٹنہ کی ہلاکتوں میں کیا گیا۔
حکومت کی رپورٹوں کے مطابق بہار میں کرونا سے ہونے والی اموات کی سامنے آنے والی یہ تعداد بھارت میں مجموعی طور پر وبا سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ نہیں کرتی۔
رپورٹس کے مطابق اگر اسے مجموعی تعداد میں شامل کیا جائے تو ہلاکتوں کی تعداد 1.2 فی صد سے بڑھ کر 1.3 فی صد تک پہنچتی ہے۔ البتہ بہار میں یہ شرح 0.7 فی صد سے بڑھ کر 1.3 فی صد تک پہنچ جاتی ہے۔
بھارت کی مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی نے کہا ہے کہ دیگر ریاستی حکومتوں کو بھی بہار حکومت کی مانند کرونا سے ہونے والی ہلاکتوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
پارٹی ترجمان ڈاکٹر شمع محمد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کرونا سے ہونے والی ہلاکتوں کی اصل تعداد چھپا رہی ہے۔
یاد رہے کہ بھارت کی حکومت اس قسم کے الزامات کی تردید کرتی ہے اور کرونا سے ہلاکتوں کی زیادہ تعداد کے دعووں کو مبالغہ آمیز قرار دیتی ہے۔
کم ہلاکتیں، کم معاوضہ
پٹنہ کے معروف معالج ڈاکٹر شکیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں الزام لگایا کہ ہر ریاستی حکومت کرونا سے ہونے والی ہلاکتوں کو چھپا رہی ہے اور ہلاکتوں کی تعداد کو کم بتانا تقریباً تمام ریاستی حکومتوں کی غیر اعلانیہ پالیسی ہے۔
ان کے مطابق دوسری ریاستی حکومتوں کی طرح بہار کی حکومت بھی کرونا سے ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو چار لاکھ روپے کی امداد دیتی ہے۔ لہٰذا جتنی کم تعداد بتائی جائے گی اتنی ہی کم امداد دینا ہوگی۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بہار حکومت نے نظر ثانی کے بعد جو تعداد بتائی ہے وہ بھی پوری حقیقت نہیں ہے۔ حکومت صرف سرکاری اسپتالوں میں ہونے والی اموات گنتی ہے، نجی اسپتالوں میں ہونے والی اموات کو نہیں جب کہ بہار میں دو تہائی کووڈ بیڈز نجی اسپتالوں میں ہیں۔
’جن کی کوئی گنتی ہی نہیں!‘
ڈاکٹر شکیل کہتے ہیں کہ کرونا کی دوسری لہر کے دوران بہت سی ہلاکتیں ٹرانزٹ میں ہوئیں۔ یعنی گھر سے اسپتال جاتے یا ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال جاتے وقت۔ ان کے بقول حکومت کے ریکارڈ میں ان کی کوئی گنتی نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دیہی علاقوں کے لوگوں کی ٹیسٹنگ بھی کم ہو رہی ہے اور دیہات میں ایسے بہت سے لوگ ہلاک ہوئے ہیں جن میں تمام علامتیں کرونا کی تھیں۔ لیکن ٹیسٹ نہ ہونے کے باعث ان کی موت کو کرونا سے ہونے والی اموات میں نہیں گنا گیا۔
SEE ALSO: کرونا وائرس کی قسم 'ڈیلٹا' سے برطانوی حکام پریشانانھوں نے دعویٰ کیا کہ شمشانوں اور قبرستانوں کے ریکارڈ اور حکومت کے ریکارڈ میں بھی کئی گنا فرق ہے۔
’یوپی حکومت بھی اموات چھپا رہی ہے‘
لکھنؤ کی ایک رضاکار تنظیم 'کووڈ 19 تدفین کمیٹی' کے چیئرمین امداد امام نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں الزام لگایا کہ یہ صرف بہار کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ریاست اترپردیش میں بھی ہلاکتوں کی حقیقی تعداد چھپائی جا رہی ہے۔
ان کے بقول کرونا کی دوسری لہر کے دوران لکھنٔو میں یومیہ تین، چار سو افراد ہلاک ہو رہے تھے جب کہ حکومت کے اعداد و شمار 100 سے اوپر ہی نہیں گئے۔
امداد امام کے بقول انہوں نے اور ان کی ٹیم نے صفی پور، اناؤ، رائے بریلی اور بارہ بنکی وغیرہ جیسے لکھنؤ کے قریبی شہروں کا دورہ کیا اور وہاں بھی ان لوگوں نے مسلمانوں کی تدفین اور ہندوؤں کی آخری رسومات ادا کی ہیں۔ ان کے بقول دیہات اور چھوٹے شہروں میں حالات اب بھی خراب ہیں۔
’دیہی علاقوں کی تعداد بہت زیادہ ہے‘
ایک نیوز ویب سائٹ 'اسکرول ڈاٹ ان' نے جمعرات کو ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کرونا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد اور خاص طور سے دیہی علاقوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جنہیں ریاستی حکومتیں چھپا رہی ہیں۔
ویب سائٹ کی رپورٹ میں مئی کے تین ہفتوں کے دوران اترپردیش، ہریانہ، بہار، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ اور راجستھان کی ریاستوں کے ہندی اخباروں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں میں کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں اور اس سے ہونے والی ہلاکتوں کی خبریں منظرِ عام پر نہیں آ پاتیں جس کی وجہ سے ان علاقوں میں ہونے والی اموات کا درست اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔