چین کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کے حکام نے کہا ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ملک میں بنائی جانے والی ویکسین اس سال کے آخر میں عوامی سطح پر ملنا شروع ہو جائے گی۔
چین میں کرونا وائرس کی چار ویکسینز کے انسانوں پر تجربات آخری مراحل میں ہیں۔ ان میں سے تین ویکسینز ایسی ہیں جو جولائی میں خصوصی طبی رضاکاروں کے لیے ہنگامی بنیاد پر شروع کیے گئے پروگرام کے تحت دی گئی ہیں۔
سی ڈی سی کی سربراہ اور بائیو سیفٹی کی ماہر گویژن وو کا کہنا تھا کہ ویکسین کے تیسرے مرحلے کے کلینکل ٹرائل حوصلہ افزا رہے ہیں اور نومبر یا دسمبر میں عوامی استعمال کے لیے ان کی فراہمی شروع ہو سکتی ہے۔
گویژن وو کا کہنا تھا کہ انہوں نے خود بھی اپریل میں ویکسین استعمال کی تھی اور اس کے کسی قسم کے منفی اثرات دیکھنے میں نہیں آئے تھے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے کون سی ویکسین استعمال کی تھی۔
چین کی سرکاری دوا ساز کمپنی چائنا نیشنل فارماسوٹیکل گروپ (سائنوفارم) اور امریکہ میں رجسٹرڈ چینی کمپنی سینووک بائیوٹیک نیشنل ایمرجنسی پروگرام کے تحت مشترکہ طور پر تین ویکسینز کی تیاری پر کام کر رہی ہیں۔
چوتھی ویکسین 'کین سینو بائیولوجکس' نے تیار کی ہے جسے جون میں چین کے فوجیوں پر استعمال کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوا ساز کمپنی سائنو فارم نے جولائی میں کہا تھا کہ تیسرے مرحلے کے تجربات مکمل ہونے کے بعد کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین اس سال کے آخر تک دستیاب ہو جائے گی۔
خیال رہے کہ کرونا وائرس سے دنیا بھر میں 9 لاکھ 25 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ اسی وجہ سے ویکسین بنانے والے بین الاقوامی اداروں میں عالمی وبا کی ویکیسن جلد از جلد بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔
گزشتہ ہفتے برطانیہ میں کرونا وائرس کی ویکسین کے آخری مرحلے کے تجربات عارضی طور پر معطل کر دیے گئے تھے جس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ جن رضاکاروں کو آزمائشی طور پر ویکسین دی جا رہی تھی ان میں سے ایک شخص بیمار ہو گیا تھا۔
'آکسفورڈ یونیورسٹی' اور ایک دوا ساز کمپنی 'آسٹرا زینیکا' مشترکہ طور پر کرونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آسٹرا زینیکا کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس ویکسین کے ٹرائلز میں رضاکارانہ طور وقفہ کیا گیا ہے تاکہ ٹرائل کے دوران سامنے آنے والی بیماری کی چھان بین کی جا سکے اور ویکسین کی آزمائش کے معیار کو برقرار رکھا جا سکے۔