پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اتوار کو اسلامی تعاون تنطیم ‘او آئی سی’ کے وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس میں طالبان کے زیر کنڑول افغانستان میں غذائی بحران سے نمٹنے اور افغان عوام کی مشکلات دور کرنے کے لیے ایک خصوصی امدادی فنڈ قائم کیا گیا۔ ساتھ ہی افغانستان کے لیے او آئی سی کا خصوصی نمائندہ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا، تاکہ عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے بین الاقوامی اداروں سے مل کر کام کیا جا سکے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلامی تعاون تنطیم کے پلیٹ فارم سے ان فیصلوں کے ذریعے افغانستان کی طالبان حکومت کو یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اگر طالبان بین الاقوامی برداری کے مطالبات بشمول ایک جامع حکومت کے قیام اور تمام افغان شہریوں بشمول خواتین کے حقوق کے تحفظ اور لڑکیوں کو تعلیم تک رسائی دینے کی طرف واضح پیش رفت کرتے ہیں، تو بین الاقوامی سطح پر ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری کا کہنا ہے کہ افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے اور خوراک کی کمی پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی ادارے کام کرنے پر تیار ہیں، لیکن اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایک ایسا طریقہ کار وضح کیا جائے جس کے تحت یہ ادارے افغانستان میں اپنی امدادی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔
اعزاز چودھری نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کی حکومت کے بعض افراد پر عائد تعزیرات کی وجہ سے براہ راست مدد کرنا آسان نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بین الاقوامی ادارے اس وقت تک براہ راست کام نہیں سکتے جب تک بینکنگ نظام کو مکمل طور پر فعال نہیں کر دیا جاتا۔
دریں اثنا، واشنگٹن ڈی سی میں امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں منظور ہونے والی قرارداد کو ''اثر انگیز'' قرار دیا اور منتظمین، خاص طور پر سعودی عرب کے کردار کا ''خیرمقدم'' کیا۔
ایک سوال کے جواب میں، اہلکار نے کہا کہ ہم خاموشی سے پس پردہ کوششوں میں شریک رہے ہیں؛ اور یہ کہ ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ ملک میں درکار زیادہ سے زیادہ نقدی فراہم ہو سکے۔
اہلکار نے کہا کہ ہم اس بات کے خواہاں ہیں کہ افغانستان میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ تنظیمیں کام کریں؛ اور یہ کہ اس ضمن میں لائسنس جاری کرتے وقت انتہائی درجے کا احتیاط برتا جائے۔
اعزاز چودھری نے کہا کہ بینکنگ چینلز کے فعال کرنے کے لیے انسانی بنیادوں پر سلامتی کونسل سے استثنیٰ حاصل کرنا پڑے گا اور اس طرف پیش رفت ہونا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اسلامی تعاون تنظیم کے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں بھی یہ طے ہوا ہے کہ اس سلسلے میں او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اقوام متحدہ کے تعاون سے یہ معاملہ حل کرانے کی کوشش کی جائے گی۔
امریکہ کے بعض حلقوں میں بھی یہ احساس موجود ہے کہ افغانستان کو درپیش اقتصادی بحران کے پیش نظر افغان عوام کو تنہا نہیں چھوڑنا نہیں چاہیے، کیونکہ بصورت دیگر وہاں کوئی ایسا بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے جس کے مضمرات عالمی سطح پر ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب امریکہ کے نمائندہ خصوصی تھامس ویسٹ نے اتوار کو اسلام آباد میں ہونے والے او آئی سی کے اجلاس کے فیصلوں کو اہم قرار دیتے ہوئے افغانستان میں انسانی امداد سے متعلق ایک خصوصی فنڈ کے قیام اور افغاستان کے لیے او آئی سی کے خصوصی نمائندے کے تقرر کا خیر مقدم کیا ہے۔
اعزاز چودھری کا کہنا ہے کہ اگرچہ طالبان کی حکومت کو ابھی تک کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا اور جب تک طالبان بین الاقوامی برداری کے مطالبات پر لچک کا مظاہرہ نہیں کرتے، اس وقت تک شاید طالبان کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
اگر طالبان بین الاقواامی برداری کے مطالبات اور توقعات کی طرف واضح پیش رفت کرتے ہیں تو ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
اعزاز چودھری کا کہنا ہے طالبان کو بھی اس بات کا ادارک ہے کہ انہیں بین الاقوامی برداری کے ساتھ روابط کے لیے اپنے رویوں میں لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
پاکستان سمیت بین الاقوامی برداری افغانستان میں امن و استحکام کی خواہاں ہے اور اگر طالبان نے امور حکومت کو پائیدار بنیادوں پر چلانا ہے تو انہیں اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لانی ہو گی۔
SEE ALSO: افغان کرنسی کی قیمت میں کمی، اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہدوسری جانب تجزیہ کار اور صحافی مشتاق یوسفزئی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں لگ بھگ 5 لاکھ سرکاری ملازمین اپنے کام پر واپس آ چکے ہیں، لیکن انہیں تنخواہیں نہیں ملی ہیں اور اسپتالوں میں ادویات کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے اگر طالبان حکومت کی سفارتی تنہائی برقرار رہتی ہے تو ملک عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔
مشتاق یوسفزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں طالبان کو یہ احساس ہے کہ ملکی نظام چلانے کے لیے انہیں وسائل کی ضرورت ہے اس لیے وہ بھی بین الاقومی ٓبرداری کو باور کرا رہے ہیں وہ تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر روابط رکھنے پر تیار ہیں اور عالمی برداری ان کی مدد کرے۔
لیکن مشتاق یوسفزئی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ طالبان یہ کہہ رہے ہیں ہم نے خواتین کے حقوق کے بارے میں واضح پالیسی کا اعلان کر رکھا ہے؛ لیکن انہیں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں عملی طور پر یہ دکھانا ہوگا کہ افغانستان میں لڑکیوں کے اسکول اور کالج کھول دیے گئے ہیں۔
اگر وہ چاہتے ہیں کہ عالمی برداری ان کے ساتھ کام کرے اور افغانستان کی ترقی میں ان کی مدد کرے تو طالبان کو اپنی پالیسیوں میں عملی طور پر تبدیلی لانی ہو گی
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس سے وابستہ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر ناصر اقبال کا کہنا ہے کہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے افغانستان کے لیے ایک خصوصی امدادی فنڈ کا قیام ایک خوش آئند اقدام ہے۔ لیکن، ان کے بقول، اس فنڈ کے تحت افغانستان کے عوام کی مدد اسی صورت ہو سکے گی جب وہاں بینکنگ کا نظام پوری طرح فعال ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ناصر اقبال کا کہنا ہے کہ اگرچہ دنیا میں کہیں بھی انسانی بحران کا خطرہ ہو تو اقوام متحدہ کے تحت بین الاقوامی امدادی اداروں کو کسی بھی ملک پر عائد تعزیرات کے باوجود محدود سطح پر کام کرنے کی اجازت مل سکتی ہے۔ لیکن بین الاقوامی امدادی اداروں کے ذریعے افغانستان جیسے ملک کی عوام مدد کرنا آسان نہیں ہے۔
ناصر اقبال کا کہنا ہے کہ اگر امدادی تنظمیں افغانستان میں اقتصادی بحران کے پیش نظر مدد کرنے پر تیار ہو جاتی ہیں تو غذائی بحران سے کسی حد تک نمٹا جا سکتا ہے۔ لیکن جب تک ان امدادی اداروں کو بین الاقوامی حمایت نہیں ملتی ان کے لیے افغانستان میں کام کرنا مشکل ہو گا۔ اس لیے، ان کے بقول، ملک میں بینکوں کا مکمل طور فعال ہونا ضروری ہے۔
ناصر اقبال کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ بات صحیح ہے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی کسی کو جلدی نہیں ہے، لیکن بین الاقوامی برادری کو احساس ہو چکا ہے کہ اگر افغانستان کا اقتصادی و سماجی ڈھانچہ کمزور ہوتا ہے تو اس سے ساری دنیا متاثر ہو سکتی ہے۔ اس لیے ناصر اقبال کا کہنا ہے کہ مالیاتی امداد کی بینکوں کے ذریعے فراہمی کا مسئلہ جلد از جلد حل کرنا ہو گا، تاکہ غذائی قلت، تعلیم اور صحت کے مسائل حل کرنے میں افغان عوام کی مدد ہو سکے۔