رسائی کے لنکس

کابل پر قبضہ امریکہ اور طالبان کے امن معاہدے کی وجہ سے ہوا: سابق افغان مشیرِ قومی سلامتی


وائس آف امریکہ کو خصوصی انٹرویو میں افغانستان کے سابق مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کے پاس قابل بھروسہ انٹیلی جنس رپورٹس تھیں کہ طالبان آنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور صدر کو لٹکا دیا جائے گا۔
وائس آف امریکہ کو خصوصی انٹرویو میں افغانستان کے سابق مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کے پاس قابل بھروسہ انٹیلی جنس رپورٹس تھیں کہ طالبان آنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور صدر کو لٹکا دیا جائے گا۔

افغانستان کے سابق مشیرِ قومی سلامتی حمد اللہ محب کا کہنا ہے کہ فروری 2020 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کی وجہ سے طالبان افغانستان پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔

وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں جب حمد اللہ محب سے پوچھا گیا کہ جب رواں سال اگست میں امریکہ کی فوج کے انخلا سے قبل طالبان پورے ملک میں پھیل گئے تو ان کی حکومت چند ہی دنوں میں کیوں تحلیل ہو گئی؟ تو انہوں نے اس کا ذمہ امریکہ اور طالبان کے درمیان تین برس سے ہونے والے مذاکرات کو قرار دیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان مذاکرات نے بالکل ایک اشارہ دیا کہ طالبان واپس آ رہے ہیں۔

حمداللہ محب کا، جو کہ اگست 2018 سے کابل پر طالبان کے قبضے تک قومی سلامتی کے مشیر رہے، کہنا تھا کہ سابق افغان صدر اشرف غنی نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب ان کی حکومت نے سیکیورٹی فورسز پر کنٹرول کھو دیا تھا۔

ان کے بقول سابق افغان صدر نے ملک اس وقت چھوڑا جب ان کی جان کو خطرہ تھا۔

حمداللہ کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کے پاس قابل بھروسہ خفیہ اطلاعات تھیں کہ طالبان آنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور صدر کو لٹکا دیا جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسی ہی معلومات امریکہ اور دیگر ذرائع سے بھی فراہم کی گئی تھی۔

امریکہ کے وزارت خارجہ کا محب اللہ کے دعوؤں پر کہنا ہے کہ حکام انٹیلی جنس رپورٹس پر مؤقف نہیں دیتے۔

البتہ امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے امریکی نشریاتی ادارے ‘سی بی ایس نیوز’ کو رواں سال اکتوبر میں دیے جانے والے انٹرویو میں صدر اشرف غنی سے ہونے والی گفتگو کا ذکر کیا تھا۔

'عالمی برادری کو یہ حقیقت ماننی پڑے گی کہ طالبان حکومت کر رہے ہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:09:24 0:00

بلنکن کا کہنا تھا کہ اشرف غنی نے ملک چھوڑے سے ایک دن پہلے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ملک میں رکیں گے اور بلنکن کے بقول وہ آخری دم تک لڑنے کے لیے تیار تھے۔

گفتگو میں محب اللہ کا مزید کہنا تھا کہ اس چیز کی کوئی ضمانت نہیں تھی کہ طالبان مذاکرات کے ذریعے نکلنے والے حل کو قبول کریں گے یا نہیں۔

ان کے بقول جس دن طالبان کابل میں داخل ہوئے یہ واضح نہیں تھا کہ آیا طالبان حکومتی وفد کے ساتھ مذاکرات کے لیے بیٹھیں گے یا نہیں۔

محب کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ عبداللہ عبداللہ جو کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعد دوحہ سے وطن واپس آئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ طالبان امن پر یقین نہیں رکھتے۔

محب کا کہنا تھا کہ انہوں نے طالبان کے موجودہ قائم مقام وزیر برائے مہاجرین خلیل حقانی سے بات کی تھی، جن کا کہنا تھا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں۔

محب کا مزید کہنا تھا کہ ان کی حکومت کابل میں جنگ نہیں کرنا چاہتی تھی جس کی وجہ سے شہر تباہ ہوتا اور ہزاروں لوگ ہلاک ہوتے۔

واضح رہے کہ افغانستان چھوڑنے کے بعد اشرف غنی کا کہنا تھا کہ کابل چھوڑنا ان کی زندگی کا مشکل ترین فیصلہ تھا اور ان کے بقول وہ سمجھتے تھے کہ کابل کے تحفظ اور اس کی 60 لاکھ آبادی کو محفوظ رکھنے کا یہی اکلوتا راستہ تھا۔

خیال رہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا مکمل ہونے سے پہلے ہی رواں سال 15 اگست کو طالبان دارالحکومت کابل پر قابض ہو گئے تھے۔ جب کہ محب اللہ اور افغان صدر غنی دیگر چند حکام کے ساتھ حکومت گرنے کے سبب ملک سے روانہ ہو گئے تھے۔

وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں امریکہ کے افغانستان کے لیے خصوصی مشیر زلمے خلیل زاد نے کابل پر طالبان کے قبضے کی وجہ اشرف غنی کا جانا قرار دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ یقینی طور پر طاقت شیئر کرنے سے متعلق معاہدہ ہو سکتا تھا۔

دنیا حکومتوں کو نہیں ریاستوں کو تسلیم کرتی ہے: زلمے خلیل زاد
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:56 0:00

زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ طالبان افغان سرکاری وفد کے ساتھ جامع حکومت کی تشکیل پر رضا مند ہو گئے تھے۔ تاہم ان کے بقول اسی دن جس دن اس معاہدے کا اعلان کیا جانا تھا، اشرف غنی اپنے قریبی ساتھیوں کو بتائے بغیر ازبکستان روانہ ہو گئے جہاں سے وہ متحدہ عرب امارات چلے گئے۔

سابق افغان صدر حامد کرزئی جو کہ کابل پر طالبان کے قبضے سے ایک روز قبل اشرف غنی سے ملے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اشرف غنی طاقت کی پر امن منتقلی کے لیے وفد بھیجنے پر رضا مند تھے۔

کرزئی کا کہنا تھا کہ جب غنی چلے گئے تو انہوں نے طالبان کو کابل کے تحفظ کے لیے مدعو کیا۔

XS
SM
MD
LG