پاکستان میں 19 دسمبر کو اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے رکن ملکوں کے وزرائے خارجہ کا ایک اجلاس ہو رہا ہے جس میں افغانستان کی صورت حال پر غور ہو گا۔
افغانستان میں طالبان کو اقتدار سنبھالے ہوئے اب چار ماہ سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ لیکن ابھی تک پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک نے اسے با ضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس کی وجوہات کیا ہیں اور او آئی سی کی اسلام آباد میٹنگ کے مقاصد کیا ہیں۔ اور کیا وہ مقاصد قابل حصول ہیں؟ اس بارے میں ماہرین کی آراء میں کسی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔
پروفیسر حسن عسکری بین الاقوامی امور کے ماہر ہیں۔ وائس آف امریکہ سے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کانفرنس یا میٹنگ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ افغانستان کے لئے انسانی بنیادوں پر ملکوں کی برادری میں یک جہتی پیدا کی جائے اور دنیا کو یہ بتایا جائے کہ افغانستان کو اس وقت جس مدد اور تعاون کی ضرورت ہے وہ اس سے قبل فراہم کی جائے کہ وہاں حالات قابو سے باہر ہو جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بھی کہا جائے گا کہ افغان حکومت کی جو رقوم امریکہ سمیت دوسرے ملکوں میں منجمد ہیں انہیں واپس کیا جائے تاکہ وہاں کی حکومت اپنے معاشی حالات کو بہتری کی جانب لے جا سکے۔
پروفیسر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسلامی ممالک اپنے طور پر کچھ امداد کے وعدے بھی کر لیں۔ لیکن جہاں تک بڑے مسائل کے حل یا اسے تسلیم کئے جانے کا تعلق ہے تو وہ نہیں سمجھتے کہ اس کانفرنس میں اس حوالے سے کسی طور بات آگے بڑھنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
SEE ALSO: افغانستان کو معاشی تباہی سے بچانے کے لیے مؤثر اقدامات کی فوری ضرورت ہے، اقوام متحدہاس سوال کے جواب میں کہ دنیا یہ جانتی ہے کہ اگر افغانستان کے حالات بدستور خرابی کی جانب جاتے رہے تو نہ صرف خطہ غیر مستحکم ہو گا بلکہ ماضی کی طرح پوری دنیا وہاں سے برآمد ہونے والی دہشت گردی کی زد میں آ سکتی ہے۔ پھر بھی وہ بھرپور انداز میں مدد کرنے کے لئے کیوں آمادہ نہیں ہے۔
پروفیسر عسکری نے کہا کہ اس کا ایک بڑا سبب تو طالبان کا ٹریک ریکارڈ ہے اور دنیا ابھی اس بات کا یقین کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ طالبان ماضی کے طالبان سے مختلف ہیں اور اگر واقعی مختلف ہیں تو کتنے مختلف ہیں۔ دوسرا یہ کہ جب تک مغربی ممالک کا رویہ پوری طرح تبدیل نہیں ہو گا اس وقت تک بیشتر ممالک کسی بھی قسم کی مدد کے سلسلے میں کافی محتاط رہیں گے۔ پھر یہ کہ امریکہ اور یوروپی یونین وغیرہ کا عالمی سیاست پر گہرا اثر ہے اور وہاں سے ابھی مثبت اشارے نہیں آ رہے ہیں۔ اس لئے کوئی بھی آگے بڑھنے پر تیار نظر نہیں آتا اور اس نقطہ نظر سے او آئی سی کی یہ کانفرنس بہت اہم ہے کہ آیا پاکستان، ترکی اور ایران جیسے اسلامی ملکوں کو چھوڑ کر باقی اسلامی دنیا بھی انسانی بنیادوں پر ہی سہی افغانستان کی مدد کے لئے تیار ہوتی ہے یا نہیں۔ کیونکہ ابھی تک تو اور کسی بھی اسلامی ملک کی جانب سے افغانستان کے لئے کوئی قابل ذکر امداد نہیں بھیجی گئی ہے۔
افغانستان کے حالات کی بہتری کے لیے پاکستان کے سرگرم کردار کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو خوف یہ ہے کہ اگر افغانستان کے حالات مزید بگڑے تو سب سے زیادہ پناہ گزیں پاکستان آئیں گے اور اسکے روکنے کے لئے پاکستان کی پوری کوشش ہے کہ افغانستان میں عام آدمی کی زندگی اس سے زیادہ مشکل نہ ہو جائے جتنی اس وقت ہے۔ تاکہ وہ ترک وطن کے بارے میں نہ سوچ سکیں۔
لیکن انہوں نے کہا کہ اس سب کے باوجود خود پاکستان نے بھی باضابطہ طور پر افغان حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور ان کا خیال ہے کہ ایسا مسلم ممالک یا کم از کم پڑوسی ممالک اجتماعی طور پر ہی کریں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پروفیسر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ او آئی سی ایک غیر فعال سا ادارہ ہے۔ جس کا عالمی سیاست پر اگر کوئی اثر ہے بھی تو انتہائی محدود۔ اس لئے اس سے کوئی بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جا سکتیں کہ وہ اس معاملے میں کوئی بڑا کردار ادا کر سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مغربی طاقتوں سے قطع نظر اگر روس اور چین کے رویے کو بھی دیکھا جائے تو تمام تر ہمدردیوں کے اظہار کے باوجود ابھی تک انہوں نے بھی افغان حکومت کو تسلیم کرنے کی بات نہیں کی ہے۔ اس لئے لگتا ایسا ہے کہ پوری دنیا انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔
لیکن انہوں نے کہا کہ دنیا کو یہ سوچنا ہو گا کہ افغانوں کی مدد کر کے انہیں اس قابل بنانا بہتر ہو گا کہ وہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی نہ پنپنے پائے اور انہیں حالات کے دھارے پر چھوڑ کر وہ حالات پیدا نہ ہونے دیے جائیں جو 9/11 سے پہلے پیدا ہوئے اور جنہوں نے دہشت گردی کے عفریت کو جنم دیا۔
بریگیڈیر سعد نذیر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسلام آباد میں 19 دسمبر کو ہونے والی او آئی سی کانفرنس کے بارے میں وائس آ ف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کِہ افغانستان او آئی سی کے بانی ارکان میں شامل ہے اور مسلم اُمّہ کی ذمہ داری ہے کہ ایک برادر اسلامی ملک کے امور پر توجہ دے۔ اور یہ بات تنظیم کے منشور کا حصہ بھی ہے کہ بہ وقت ضرورت اپنے رکن ملکوں کی مدد جائے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اسی نقطہ نظر سے یہ کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔
انہوں نے پاکستان کے رول کا ذ کر کرتے ہوئے کہا کہ وہ خصوصی طور پر اس خطے میں مسلم اُمّہ میں اور پھر بین الاقوامی سطح پر ایک سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔
بریگیڈیر سعد نذیر کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کانفرنس بعد کے کسی مرحلے پر افغان حکومت کو تسلیم کئے جانے کی طرف ایک قدم تو ہے لیکن فوری طور پر یہ ممکن نہیں ہو گا۔ البتہ یہ کانفرنس انسانی بنیادوں پر افغانوں کے مسائل کے حل کے لئے، افغنستان کو عدم استحکام سے بچانے کے لئے اور ایسے حالات پیدا کرنے کے لئے اقدامات تجویز کرنے کے لئے ضروری تھی جن میں دہشت گردی پنپ نہ سکے۔
اور انہوں نے کہا کہ او آئی سی کے لئے ان مقاصد کا حصول ناممکن بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے رکن ملکوں کے ہاس خاطر خواہ وسائل موجود ہیں۔