عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کا بڑھتا ہوا رجحان گذشتہ چند ماہ سے معاشی ماہرین کے لیے پریشانی کا سبب بنا ہوا ہے۔ ان کے مطابق اگر تیل کی قیمتوں میں اسی طرح سے اضافہ ہوتا رہا تو نہ صرف پوری دنیا میں مہنگائی میں اضافہ ہوگا بلکہ تیل کی پیداوار بھی متاثر ہوگی۔
ماہرین تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی ایک وجہ مشرق ِ وسطیٰ کے بعض ممالک میں جاری انتشار کی صورتحال کو بھی قرار دے رہے ہیں۔ یہ اضافہ امریکی صارفین کو بھی متاثر کررہاہے۔
گذشتہ چند دہائیوں میں تیز رفتار دنیا کی تمام تر حرکت کا دارومدار تیل پر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی ملک میں توانائی کے بحران سے دیگر کئی مسائل جنم لیتے ہیں جن میں مہنگائی سرِ فہرست ہے۔
ڈاکٹرچارلس ایبنگر ماہرتوانائی ہیں اور واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ امریکہ اپنی ضرورت کا زیادہ تر تیل اپنے وسائل سے پیدا کرتا ہے لیکن چونکہ وہ بڑی مقدار میں تیل درآمد بھی کرتا ہے اسی لیے مشرق ِ وسطیٰ کے کئی ملکوں کی صورتحال کا اثر نہ صرف عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں پر پڑا ہے بلکہ امریکہ میں تیل کی قیمت بڑھ گئی ہے ۔
ان کا کہناہے کہ جب لیبیا کے حالات خراب ہوئے تو تیل کی طلب و رسد بھی متاثر ہوئی ۔یورپ اپنی تیل کی ضروریات کا بڑا حصہ لیبیا سے پورا کرتا تھا مگرلیبیا کو درپیش حالات کے بعد تیل کی یہ رسد رک گئی ۔امریکہ میں بھی لیبیا کے حالات کے باعث تیل کی قیمتوں میں فی گیلن بیس سے تیس سینٹوں کا فرق پڑا اور اگر شام اور مصر میں صورتحال بہتر نہ ہوئی تو میرے خیال سے اس سے امریکہ میں تیل کی قیمت پر چالیس سے پچاس سینٹ فی گیلن کا فرق پڑ سکتا ہے ۔
امریکہ دنیا کے ان ممالک میں سر ِفہرست ہے جہاں تیل کی کھپت بہت زیادہ ہے۔ ڈاکٹر چارلس ایبنگر کے مطابق امریکہ میں تیل کی یومیہ کھپت دو کروڑ بیرل تک ہے۔
انکا کہنا ہے کہ امریکہ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کا ایک سبب امریکہ میں آنے والے حالیہ سیلاب بھی ہیں۔
http://www.youtube.com/embed/yIEDYHI14YI
معاشیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تیل کی قیمتوں پر صرف طلب و رسد ہی نہیں بلکہ دیگر کئی عناصر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
چارلس ایبنگر کہتے ہیں کہ تیل بنانے والے کارخانوں کو وقتا فوقتا صفائی و دیکھ بھال کی غرض سے بند کرنا پڑتا ہے۔ مرمت و صفائی کے اس کام کے لئے تیل کے کارخانے بند کرنے کے بارے میں پہلے سے بتا دیا جاتا ہے لیکن چونکہ تیل کی مانگ بہت زیادہ ہے اسی لیے اگر مرمت کی غرض سے تیل کے ایک یا دو بڑے کارخانے وقتی طور پر بھی بند کر دئیے جائیں تب بھی پٹرول کی قیمتوں میں وہ اضافہ ہوسکتا ہے جو ہم نے ابھی دیکھا ہے۔
عالمی توانائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کو خام تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں کم کرنے اور عالمی سطح پر معاشی نقصان سے بچنے کے لیے تیل کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا۔
جبکہ تیل برآمد کرنے والے بارہ ممالک کی تنظیم اوپیک جو دنیا بھر کی تیل کی ضروریات کا چالیس فیصد پیدا کرتے ہیں، کہنا ہے کہ تیل کی موجودہ پیداوار تسلی بخش ہے اور اس میں اضافے کی ضرورت نہیں۔
امریکہ میں جنوری کے آغاز میں تیل کی فی گیلن قیمت 2.99 ڈالر سے بڑھ کر گذشتہ چار ماہ میں اب کئی جگہوں پر چار ڈالر سے زیادہ ہو گئی ہے ۔ واشنگٹن میں ماہرین کے نزدیک اگر مشر ق ِ وسطیٰ کے حالات انتشار کا شکار رہے تو ان قیمتوں میں مزید اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔