یورپی یونین کمیشن کے خارجہ اُمور اور سیکیورٹی پالیسی کے ترجمان پیٹر اسٹینو نے کہا ہے کہ اوپیک ممالک کی جانب سے تیل کی پیداوار میں یومیہ 20 لاکھ بیرل کٹوتی کا زیادہ اثر یورپ پر نہیں بلکہ دنیا کے غریب ملکوں پر پڑے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ سعودی عرب ہمارے اہم اتحادیوں میں سے ایک ہے اور ہم اتحادیوں کے ساتھ روابط پر یقین رکھتے ہیں، ان پر پابندیاں لگانے پر نہیں۔
وائس آف امریکہ کی مونا کاظم شاہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اس وقت نہ صرف یورپ بلکہ پوری دنیا میں توانائی کی مارکیٹ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی بڑی وجہ روس کی غیر قانونی جنگ کے منفی پہلو ہیں۔ لہذٰ اہم یورپی یونین اور عالمی برادری میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر یہ زور دے رہے ہیں کہ اس جنگ کو رکنا چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں یورپی ملکوں کے لیے ایک مسئلہ ہو سکتی ہیں، لیکن ہم پھر بھی اُنہیں برداشت کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ افریقہ، ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے لوگوں کے لیے قابلِ برداشت نہیں ہیں، کیوں کہ یہ یورپی ملکوں کی طرح امیر ممالک نہیں ہیں۔
تیل کی پیداوار میں کٹوتی پر امریکہ کی جانب سے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت روکنے کی تجویز اور یورپی ممالک کی جانب سے بھی اسی قسم کے اقدام کے سوال پر پیٹر اسٹینو کا کہنا تھا کہ سعودی عرب پر پابندیاں لگانے کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ اوپیک کا فیصلہ تھا، جس کے کئی اراکین ہیں۔ یورپی یونین ویسے بھی ماحول دُشمن فوسل فیولز سے چھٹکارا حاصل کر رہی ہے اور ہم نے ماحول دوست توانائی کو اپنا ناشروع کر دیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم آلودگی پھیلانے والے ایندھن، تیل اور پھر گیس کو بھی الوداع کہنا چاہتے ہیں، یوکرین کے خلاف پیوٹن کی غیر قانونی جارحیت نے ہماری ان کوششوں کواور تیز کر دیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں پیٹر اسٹینو کا کہنا تھا کہ روسی تیل کے سب سے بڑے برآمدکنندہ ہونے کے باوجود روس سے تیل کی خریداری میں 35 فی صد کمی واقعی ہوئی ہے اور دسمبر تک ہم روسی تیل کی درآمد بند کر دیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یورپی یونین پہلے ہی فیصلہ کر چکی ہے کہ ہم روسی تیل کی درآمدات 95 فی صد تک کم کر دیں گے۔صرف پانچ فی صد رہ جائے گا جو زیادہ تر ہنگری کو جاۓ گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے یورپ کے بعض ممالک مہنگائی کی زد میں ہیں، لیکن دنیا بھر میں مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ تاہم یورپی یونین اقتصادی طور پر سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ اس لیے مشکلات تو ہوں گی، لیکن ہم اس سے نمٹ لیں گے۔
واضح رہے کہ عالمی سطح پر لگ بھگ 44 فی صد تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک نے گزشتہ ہفتے تیل کی پیداوار میں یومیہ 20 لاکھ بیرل کمی کا اعلان کیا تھا جس پر امریکہ نے شدید تنقید کی تھی۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ سعودی عرب کو اس اقدام کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔