کراچی میں نادر اور قیمتی کتب کا فٹ پاتھ بازار

کراچی میں کتابوں کے فٹ پاتھ بازار کا ایک منظر

لائق والدین کی نالائق اولادوں کے سبب کتابوں سے محبت کرنے والوں کو یہاں نادر کتابیں مل جاتی ہیں ''۔ یہ کہنا ہے عبدالرشید کا جو کراچی میں ریگل چوک سے متصل ایک گلی میں پچھلے تیس برسوں سے فٹ پاتھ پر کتابیں بیچ رہے ہیں۔

اس گلی میں ہر اتوار کے روز صبح نو بجے کتابوں کے بورے بھر بھر کر آتے ہیں لیکن ان بوریوں کے کھلنے سے قبل ہی کتاب دوست یہاں پہلے سے موجود ہوتے ہیں جو اپنی مطلوبہ کتابیں خریدنے کے لئے صبح سویرے سے اس لئے انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ کہیں دیر ہوگئی تو کوئی اور وہ نادر کتاب نہ لے اڑے۔

پرانی کتابوں کے ڈھیر میں کئی نادر اور نایاب کتابیں بھی موجود ہوتی ہیں۔

​اختر بلوچ محقق ہیں اور تاریخ کے معلم بھی,وہ ہراتوار یہاں سے کتابیں خریدنے آتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ بازار 1964 سےلگ رہا ہے اور اُس وقت سے اب تک یہ محققین، دانشوروں، شعراء اور ادیبوں کے ملنے کا ٹھکانہ رہا ہے۔ یہاں سب آ کر اپنی مطلب کی کتابیں چھانٹتے ہیں اور اگر کوئی دوست کسی مصروفیت کے سبب نہ آسکے تو اسکے مزاج اور منشا کے مطابق کتاب خرید کر بھی رکھ لی جاتی ہے تاکہ اگلی ملاقات پر اسے تحفتاً دے دی جائے۔

یہاں ہر شخص کا اتوار کو صبح سویرے آکر نادر اور قیمتی کتابوں کا حصول اولین مقصد ہوتا ہے اسکی ایک اہم وجہ وہ کتابیں ہیں جنکی اب اشاعت ممکن نہیں یا پھر نایاب ہونے کے سبب بازار میں مہنگے داموں دستیاب ہوتی ہیں۔ دوسری اہم وجہ یہاں اہل علم کا اکھٹا ہونا اور پھر کتابیں خریدنے کے بعد قریبی ایرانی ہوٹل میں جاکر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے حالات حاضرہ پر تبصرہ کرنا ہے۔ اس لحاظ سے یہ جگہ مل بیٹھنے کا بہانہ ہے جہاں کتاب دوست نہ صرف جمع ہوتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے واقفیت بھی قائم کرلیتے ہیں۔

اپنی پسند کی کتاب ڈھونڈنے کے لیے وقت صرف کرنا پڑتا ہے۔

اختر بلوچ کا کہنا ہے کہ یہاں کتابیں بیچنے والوں کو اپنے مستقل خریداروں کا پتہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ اگر کوئی مستقل گاہک مہینے دو مہینےنہ آئےتو یہ خود اسکی مزاج پرسی کو پہنچ جاتے ہیں ۔ اکثر ایسا بھی ہوا ہے کہ وہ کتاب خریدنے والا دنیا سے گزر گیا ہوتا ہے اور اسکے گھر والے اسکے اس شوق سے بیزار اس انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ کوئی آئے اور وہ یہ کتابیں اونے پونے دام بیچ کر جان چھڑائیں۔ ایسے میں یہ دکاندار علمی خزانے کم نرخ پر خرید لاتے ہیں۔ اگر یہاں کبھی کسی ہفتے یہاں سندھی یا اردو ادب کی کتابوں کے ڈھیر پڑے ہوں تو سمجھ جائیے کہ کوئی دانشور ، شاعر یا ادیب گزر گیا۔ اور اگر کبھی یہاں سائنس و انگریزی کی کتابیں دکھائی دیں تو سمجھیں کوئی استاد یا معلم چلا گیا۔ میں نے تو یہاں ایک نامور شاعر کے گھر سے بھیجی گئیں کتابوں کا ذخیرہ بھی دیکھا ہے۔ جسے ان سب کتاب دوستوں نے دل و جان سے سمیٹا جو انکی قدر و قیمت سے واقف تھے۔

کتابوں کے فٹ پاتھ بازار میں ہر تقریباً ہر موضوع پر اپنی پسند کی کتاب مل جاتی ہے۔

عبدالرشید جو یہاں گزشتہ تین دہائیوں سے کتابیں فروخت کر رہے ہیں انکا کہنا ہے کہ یہاں معروف عالم دین، سیاستدانوں اور معلمین کا آنا جانا ہے جبکہ انھیں طالب جوہری، احمد فراز، ناصر کاظمی، سحر انصاری، فدا جعفری سے ملنے کا شرف حاصل ہوچکا ہے۔ جبکہ ملکی و غیر ملکی شہری بھی یہاں شوق سے آتے ہیں ۔ یہاں ہر زبان،ہر موضوع پر لکھی جانے والی کتاب سستے داموں دستیاب ہے۔ لیکن صٖفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات ہونے کے سبب دینی کتابیں فروخت کرنے میں مسائل کا سامنا رہتا ہے چونکہ یہ بازار ایک ہی روزلگتا ہے تو کوئی چارہ نہیں کہ کچھ کیا جائے۔ عبدالرشید کا کہنا ہے کہ فروخت ہونے والی کتابوں کی قیمت دس روپے سے سو اور دو سو روپےتک ہے۔ اب یہ خریدنے والے پر ہے کہ وہ کتنے پیسے خرچ کرتا ہے۔ کچھ ایسے طلباء بھی ہیں جنھیں اکثرمفت بھی کتاب دے دیتے ہیں.

اکثر طالب علم اور محقق کم قیمت پر کتابیں حاصل کرنے کے لیے فٹ پاتھ بازار کا رخ کرتے ہیں۔

صرف کراچی سے نہیں بلکہ دوسرے شہروں سے آئے والےلوگ بھی اس بازار سے مستفید ہورہے ہیں۔ کوئٹہ، اندرون سندھ، چترال ، گلگت اور دیگر شہروں سے آنے والے شہریوں میں کوئی طب کی تعلیم حاصل کر رہا ہے تو کوئی اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے لئے سستی کتابوں کے حصول کی خاطر اس گلی تک پہنچا ہوتا ہے۔ اس گلی میں داخل ہوں تو منظر ہی الگ ہے ذوق و شوق سے کتابیں ڈھونڈتے اور ڈھیر سے اپنی مطلوبہ کتابیں چھانٹتے لوگ مگن دکھائی دیتے ہیں۔ فٹ پاتھ پر کہیں ترتیب سے رکھی تو کہیں ڈھیر میں پڑی کتاب پر نظریں جمائے شہریوں کو دیکھ کر ایسا ہی گمان ہوتا ہے کہ جیسے جوہری ہیروں کی پہچان میں مصروف ہوں۔

فٹ پاتھ پر سجی ہوئی پرانی کتابیں علم دوست افراد کی منتظر ہیں۔

وہ لوگ جو ڈیجیٹل دور میں بھی کتاب سے عشق کرتے ہیں انکی بدولت ہی اس گلی کی رونق اتنے برسوں سے قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سے لوٹتے وقت چہروں پر محبوب کے ملنے کی خوشی تو انگلیوں کی پوریں کئی دہائیوں پرانےا وراق کی خوشبو سے لپٹے ساتھ چل پڑتی ہے جو اگلی بار پھر سے اس گلی کے درشن کروانے کا سبب بن جاتی ہے۔