بھارت میں ہونے والی ایک بڑی سائنس کانفرنس میں اس وقت دلچسپ صورت حال پیدا ہو گئی جب کئی سائنس دانوں نے اپنے تقریروں میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آج جن سائنسی ایجادات پر فخر کیا جاتا ہے، وہ ہزاروں سال پہلے ہندوستان کے ہندو معاشرے میں موجود تھیں اور انہیں قدیم دور کے ہندوؤں نے ایجاد کیا تھا۔
اس کانفرنس کی صدارت کئی نوبیل انعام یافتگان نے کی جو حیرت سے مقررین کے چہرے دیکھتے رہے۔
کانفرنس کا افتتاح وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا۔
انڈین سائنٹیفک کانگریس ایسوسی ایشن نے اتوار کے روز 3 تا 7 جنوری تک جاری رہنے والی اپنی سالانہ سائنس کانفرنس میں اہم علمی اور سائنسی شخصیات کی جانب سے قدامت پرستی پر مبنی دعوؤں پر شديد تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔
بھارتی سائنس دانوں اور سکالرز کے اس اہم اجتماع میں بھارت کے جنوبی حصے میں واقع ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اپنے مقالے میں دعویٰ کیا کہ ‘سٹمپ سیل‘ جس پر آج فخر کیا جا رہا ہے، ہزاروں سال پہلے ہندو معاشرے میں مروج تھا۔
انہوں نے ہندومت کی ایک قدیم کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کورو عہد میں ایک ماں نے 100 بچے پیدا کیے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سٹمپ سیل اور ٹیسٹ ٹیوب ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے تھے۔ کیونکہ اس کے بغیر ایک عورت اتنی تعداد میں بچے پیدا نہیں کر سکتی۔
آندھرا یونیورسٹی کے وائس چانسلر جی ناگشوار راؤ نے اپنے دعوے کے ثبوت میں ہندو مذہبی کتاب مہاراشٹر میں کورو عہد کے متعلق ایک کہانی پیش کی۔
راؤ نے سائنس دانوں اور طالب علموں کے اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے صدیوں پرانے ایک ہندو بادشاہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے پاس درجنوں ہوائی جہاز تھے اور جہازوں کے اڑانے اور اتارنے کا ایک جدید نیٹ ورک تھا۔
کیمسٹری کے ایک پروفیسر نے جدید سائنس سے متعلق اپنا تحقیقی مقالہ پڑھتے ہوئے بتایا کہ ہندو راجہ وشنو اپنے دشمنوں کے خلاف میزائل استعمال کرتا تھا جس کا نام ’وشنو چاکرا‘ تھا۔ یہ میزائل حرکت کرتی ہوئی چیزوں کو اپنا نشانہ بناتے تھے۔
بھارت کی جنوبی ریاست تامل ناڈو کے ایک سائنس دان نے اپنی تقریر میں کہا کہ آئن سٹائن اور نیوٹن نے جو نظریات پیش کیے، ان کا ذکر ہزاروں سال پرانی ہندو مذہبی کتابوں میں موجود ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آئن سٹائن اور نیوٹن کے نظریات چربہ تھے۔
سائنس کانفرنس کے منتظمین نے اس نوعیت کی تقریروں کو بدقسمتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اختلافی اور نزاعی تقریروں کے ذریعے اس باوقار تقریب کو مذاق بنا دیا گیا۔
انڈین سائنٹیفک کانگریس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری پرمندو پی ماتھر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کے دعوؤں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔
بھارت کی اہم علمی اور سیاسی شخصیات کی جانب سے جدید دور کی ترقی کا ماخذ قدیم ہندو مذہبی کتابوں پران اور وید کو قرار دیے جانے کے دعوؤں کوئی نئی بات نہیں ہے۔
بھارت کے ہائر ایجوکیشن کے وزیر ستیاپال سنگھ نے پچھلے سال کہا تھا کہ ڈارون کا نظریہ ارتقا غلط ہے اور وہ اسے تعلیمی نصاب سے نکال دیں گے۔
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 2015 میں اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ہندو مذہب کی کتابیں شاشتر اور وید اس چیز کا ثبوت ہیں کہ ہزاروں سال پرانے ہندو معاشرے میں پلاسٹک سرجری کی جاتی تھی۔
بھارت کے سائنس کے وزیر ہریش وردھن نے پچھلے سال ایک تقریب میں کہا تھا کہ یونانیوں نے ریاضی کے اصول قدیم ہندوستان سے چرائے اور آئن سٹائن کا نظریہ اضافت دراصل ہندو مذہبی کتاب وید سے لیا گیا ہے۔
بھارت کے مختلف شہروں میں نوجوانوں نے سائنس کانفرنس میں پیش کیے جانے والے نظریات اور دعوؤں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے۔
انڈین سائنٹیفک کانگریس ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہندو مت کی قدیم کتاب پران، رزمیہ شاعری کی کتاب ہے۔ وہ پر لطف ہے اور اس میں تخیل کی پرواز، قیاس آرائیاں اور اخلاقی درس ہیں لیکن ان کی بنیاد سائنس اور تسلیم شدہ نظریات پر نہیں ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سائنس دانوں کے اس باوقار اجتماع کو قدیم ہندوستان سے متعلق جھوٹے اور وطن پرستانہ دعوؤں کے لیے استعمال کیا گیا۔