کرونا وائرس کی نئی قسم اومکرون دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل رہی ہے۔ البتہ نئے ثبوتوں میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اومکرون قسم جنوبی افریقہ میں باضابطہ طور پر پائے گئے پہلے کیسز سے قبل ہی مغربی یورپ میں موجود تھی۔
ہالینڈ کے حکام نے منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ 19 نومبر تک لیے گئے کچھ نمونوں میں اومکرون قسم پائی گئی تھی۔ جو جنوبی افریقہ سے ایمسٹرڈیم آنے والے مسافروں میں وائرس کی موجودگی سے ایک ہفتے قبل کے کیسز ہیں۔
ادھر جاپان اور فرانس کے شعبۂ صحت کے حکام نے منگل کو ملک میں اومکرون قسم کے کیسز کی تصدیق کی ہے۔ اس سے پہلے برطانیہ، کینیڈا، اسکاٹ لینڈ، آسٹریلیا، آسٹریا، اسپین اور سوئیڈن میں اومکرون کے کیسز سامنے آ چکے ہیں۔
اومکرون کے سامنے آنے اور اس کے تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے منگل کو ہی ادویہ ساز کمپنی موڈرنا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اسٹیفن بینسل نے اخبار 'دی فنانشل ٹائمز' سے بات کرتے ہوئے خبردار کیا کہ موجودہ ویکسینز کرونا وائرس کی ڈیلٹا سمیت دوسری اقسام کے مقابلے میں اومکرون کے خلاف شاید اتنی مؤثر نہ ہوں۔
SEE ALSO: کرونا وائرس کی نئی قسم اومکرون سے کیسے نمٹا جائے؟بینسل کے بقول کرونا کی نئی قسم اومکرون کے خلاف ویکسینز کے کم مؤثر ہونے کے بیان کے بعد دنیا بھر کی مالیاتی مارکیٹوں میں مندی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔
منگل کو ٹوکیو کی نکئی اسٹاک مارکیٹ میں 1.5 فی صد مندی دیکھنے میں آئی جب کہ خام تیل کی مستقبل کی خرید و فروخت میں 3 فیصد مندی رہی۔ امریکی اسٹاک مارکیٹوں کے مستقبل کے سودوں میں بھی مندی دیکھنے میں آئی۔
دوسری جانب آکسفرڈ یونی ورسٹی کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم جس نے ایسٹرازینیکا ویکسین بنائی تھی، کا کہنا ہے کہ موجودہ ویکسینز نے ''بیماری کی شدت کے خلاف مسلسل حفاظت فراہم کی ہے اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اومکرون اس سے مختلف ہے۔''
ان کے بقول اگر ضرورت پڑی تو ان کے پاس ویکسین کو بہتر کرنے کا آپشن موجود ہیں۔
ادھر یورپی یونین میں ادویات کے کنٹرول کی تنظیم یورپین میڈیسنز ایجنسی کے سربراہ ایمر کوک نے برسلز میں یورپی یونین کے عہدیداروں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ موجود ویکسینز اومکرون کے خلاف حفاظت کے لیے کافی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو چار مہینوں کے مختصر عرصے میں نئی ویکسین بنا کر منظور کی جا سکتی ہے۔
کرونا کی نئی قسم کے سامنے آنے پر عالمی ادراۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ ٹیڈروس اڈہانم نے ایک بیان میں منتبہ کیا کہ اومکرون کا سامنے آنا اس بات کی یاد دہانی ہے کہ اگرچہ ہم کرونا وائرس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن ابھی تک کرونا وائرس ہمارے پیچھے لگا ہوا ہے۔
ان کے بقول ہم گھبراہٹ اور غفلت کے دور سے گزر رہے ہیں۔ ایسے میں محنت سے حاصل کیے ہوئے نتائج بہت جلدی کھوئے جا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری توجہ کا مرکز اس عالمی وبا کو ختم کرنا ہونا چاہیے۔
عالمی ادارۂ صحت نے اپنے بیان میں کہا کہ اومکرون سے خطرہ بہت زیادہ ہے البتہ اب تک اس کی وجہ سے کوئی ہلاکت ریکارڈ نہیں ہوئی ہے۔
علاوہ ازیں اومکرون کی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ نے پیر کو تمام بالغ آبادی کو کہا ہے کہ وہ ویکسین کے بوسٹر شاٹ لگوائیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
کرونا کی اس نئی قسم کے باعث مختلف ممالک نے سفری پابندیاں بھی عائد کردی ہیں۔ پولینڈ نے سات افریقی ممالک سے اپنے ہوائی سفر کو معطل کیا ہے جب کہ جاپان نے بھی غیرملکی مسافروں کی آمد پر پابندی لگا دی ہے۔
اس سے قبل اسرائیل اور مراکش نے بھی تمام غیرملکیوں کی آمد پر پابندی عائد کی تھی۔
اس کے علاوہ دوسرے ممالک جن میں امریکہ، کینیڈا، برازیل اور کچھ یورپی یونین کے ممالک شامل ہیں نے افریقہ کے جنوبی خطے سے مسافروں کی آمد پر پابندیاں لگا دی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہیں ان سفری پابندیوں کی وجہ سے جنوبی افریقی ممالک کو تنہا کرنے پر شدید تشویش ہے۔
جنوبی افریقہ کے صدر سیریل رامافوسا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کا ملک ان سفری پابندیوں کی وجہ سے شدید مایوس ہے۔ انہوں نے ان پابندیوں کو غیرمنصفانہ قرار دیا۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد خبر رساں ادارے 'رائٹرز' اور 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔