رسائی کے لنکس

'اومکرون' قسم سامنے آنے کے بعد بھارت میں کرونا کی تیسری لہر کے خدشات


بھارت میں ایک طرف جہاں کرونا مثبت کیسز میں کافی کمی آئی ہے اور منگل کو صرف چھ ہزار کیسز ہی سامنے آئے وہیں دوسری طرف نئے ویریئنٹ اومکرون کی دستک اور کرونا کی تیسری لہر کے پہلے سے موجود انتباہ نے حکومت اور عوام کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔

اس سلسلے میں مرکزی حکومت کی جانب سے ریاستی حکومتوں کو نئی ہدایات جاری کی گئی ہیں اور عوام کو بھی کرونا گائیڈ لائنز کی پابندی کی ہدایت دی گئی ہے۔

ریاستی حکومتوں کو ہدایت

مرکزی محکمہ صحت میں سیکریٹری راجیش بھوشن نے منگل کو تمام ریاستوں کے نمائندوں کے ساتھ ایک جائزہ میٹنگ کی اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ کیسز کی شناخت کے لیے ٹیسٹنگ تیز کریں۔

حکومت نے خطرات کے زمرے والے ممالک کی نشان دہی کی ہے جن میں جنوبی افریقہ، چین، بوتسوانا، برطانیہ، برازیل، اسرائیل، بنگلہ دیش، ماریشس، نیوزی لینڈ، زمبابوے، سنگاپور اور ہانگ کانگ شامل ہیں۔

بین الاقوامی پروازوں پر پابندی کا مطالبہ

بھارتی حکومت نے 15 دسمبر سے بین الاقوامی پروازیں شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال نے منگل کو ایک بار پھر وزیرِ اعظم نریندر مودی سے اپیل کی کہ وہ اومکرون ویریئنٹ سے متاثرہ ملکوں سے آنے والی پروازوں پر پابندی لگائیں۔

انہوں نے کہا کہ کئی ملکوں نے متاثرہ ملکوں سے پروازوں پر پابندی لگا دی ہے۔ ہم کیوں تاخیر کر رہے ہیں۔ ہم نے پہلی لہر کے دوران بھی بین الاقوامی پروازیں روکنے میں تاخیر کی تھی۔ انہوں نے اتوار کو بھی وزیرِ اعظم سے پروازیں روکنے کی اپیل کی تھی۔

دوسری متعدد ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے بھی متاثرہ ملکوں سے آنے والی پروازوں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔

پروازوں کے لیے نئی گائیڈ لائنز

دریں اثنا یکم دسمبر سے بین الاقوامی پروازوں کے مسافروں کے لیے نئے ضابطے نافذ ہو رہے ہیں جن کے مطابق متاثرہ ملکوں سے آنے والے مسافروں کا ایئرپورٹ پر آر ٹی پی سی آر ٹیسٹ کیا جائے گا۔ اگر ان کا ٹیسٹ مثبت آیا تو انہیں حکومت کے قرنطینہ مراکز میں بھیج دیا جائے گا۔

گائیڈ لائنز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جن مسافروں کا ٹیسٹ منفی آئے گا انہیں گھر جانے کی اجازت ہو گی لیکن انھیں سات روز تک ہوم آئسولیشن میں رہنا ہو گا اور بھارت پہنچنے کے آٹھویں روز پھر ان کا ٹیسٹ کیا جائے گا۔ اس کے بعد انہیں سات دنوں تک خود اپنی نگرانی کرنا ہو گی۔

رپورٹس کے مطابق شہری ہوا بازی کے ڈائریکٹر جنرل کی ہدایت کے مطابق ہوائی اڈوں پر مسافروں کے ٹیسٹ کے لیے علیحدہ مقامات مختص کیے گئے ہیں۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت نے کرونا کی پہلی اور دوسری لہر سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اسے ممکنہ تیسری لہر سے مقابلے کے لیے جو تیاری کرنی چاہیے تھی وہ اس نے ابھی تک نہیں کی۔ جب کہ اسی درمیان ایک نیا ویریئنٹ بھی آ گیا ہے۔ اس لیے حکومت کو نئے حالات سے مقابلے کے لیے بڑے پیمانے پر تیاری کی ضرورت ہے۔

’حکومت الرٹ ہے‘

صفدر جنگ اسپتال، نئی دہلی سے وابستہ ڈاکٹر سید احمد خاں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نئے ویریئنٹ اور تیسری لہر کے خطرے کے پیشِ نظر حکومت پہلی اور دوسری لہر کے مقابلے میں اس وقت زیادہ الرٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت نے ریاستی حکومتوں کو ہدایات جاری کی ہیں۔ لیکن ریاستی حکومتیں پہلے بھی غفلت میں مبتلا رہی ہیں اور اب بھی ہیں۔ تاہم مرکزی حکومت نے تیسری لہر کے خطرے کے پیشِ نظر تسلی بخش تیاریاں کی ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسپتالوں میں بیڈز اور آکسیجن میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹروں کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے۔ اسٹاف بھی بڑھایا جا رہا ہے۔ دہلی کی ریاستی حکومت نے بھی میڈیکل شعبے میں کافی تیاری کی ہے۔ محکمہ صحت کی جانب سے سختی سے جانچ کی جا رہی ہے۔

چمگادڑوں سے متعلق بدگمانیاں دور کرنے کی کوشش
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:42 0:00

ان کے بقول جہاں تک نئے ویریئنٹ اومکرون کی بات ہے تو ابھی تک باہر سے آنے والے کسی بھی شخص میں نیا ویریئنٹ نہیں پایا گیا ہے۔ اس کے سلسلے میں عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے جو گائیڈ لائنس جاری کی ہیں اور اب تک ریسرچ میں جو باتیں سامنے آئی ہیں ان سے ایسا نہیں لگتا کہ اس سے کوئی بہت زیادہ خطرہ ہے۔

حالانکہ کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیا ویریئنٹ ڈیلٹا ویریئنٹ سے زیادہ خطرناک ہے۔ ڈیلٹا ویریئنٹ کی وجہ سے ہی بھارت میں دوسری لہر آئی تھی جو بہت زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہوئی تھی۔

ڈاکٹر سید احمد نے یہ بھی کہا کہ ملک میں بڑے پیمانے پر ویکسین لگانے کا عمل جاری ہے اور عوام کی بہت بڑی تعداد کو ویکسین دی جا چکی ہے۔

’حکومت نے کوئی سبق نہیں سیکھا‘

ملک کے معروف معالج ڈاکٹر شکیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دنیا میں نئے ویریئنٹ کا پایا جانا تشویش کا باعث تو ہے لیکن اس بارے میں ابھی تک کسی کو زیادہ علم نہیں ہے۔ اگر اومکرون خطرناک ہوا تو اس کی ابھی سے تیاری کرنا ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ اس کے لیے حکومت کی سطح پر کچھ اقدامات کیے جا رہے ہیں لیکن جس پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے اس پیمانے پر نہیں ہو رہے۔ اس سلسلے میں طبی شعبے میں بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کے خیال میں کرونا کی دوسری لہر میں اس بات کو شدت سے محسوس کیا گیا تھا کہ میڈیکل شعبے میں بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے، بیڈز، آکسیجن، ڈاکٹرز اور اسٹاف میں اضافے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس سلسلے میں کوئی تیاری نظر نہیں آتی۔

ان کے بقول عوام نے احتیاط چھوڑ دی ہے۔ تہواروں کے دوران بھی کوئی احتیاط نظر نہیں آئی۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ اب کرونا ختم ہو چکا ہے۔ حالانکہ وہ جلد ختم ہونے والا نہیں ہے۔ وائرس جلدی ختم نہیں ہوتا۔

’ ہم نے کرونا سے بہت کچھ سیکھا ہے‘

دریں اثنا مرکزی وزیر صحت من سکھ منڈاویا نے منگل کو راجیہ سبھا میں بتایا کہ ابھی تک ملک میں نئے ویریئنٹ اومکرون کا کوئی بھی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کرونا بحران کے دوران بہت کچھ سیکھا ہے۔ اس وقت ہمارے پاس بہت وسائل ہیں۔ ہم کسی بھی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

اسی درمیان ’ہر گھر دستک‘ یعنی گھر گھر جا کر لوگوں کو ویکسین لگانے کی حکومت کی مہم میں 31 دسمبر تک توسیع کر دی گئی ہے۔ اس مہم کا مقصد ملک کے تمام مجاز شہریوں کو ویکسین کی پہلی خوراک دینا اور دوسری خوراک دینے کے عمل کو تیز کرنا ہے۔

ادھر مرکزی وزارت داخلہ نے منگل کے روز کرونا سے متعلق پابندیوں میں 31 دسمبر تک توسیع کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس نے اومکرون کے پیشِ نظر وزارتِ صحت کی جانب سے جاری کیے جانے والی ہدایات پر سختی سے عمل کیے جانے پر بھی زور دیا۔

دہلی اور دیگر ریاستوں کی تیاری

دہلی ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے دہلی کے محکمہ صحت کو اسپتالوں میں بستر، ادویات اور آکسیجن کی موجودگی کو یقینی بنانے کی ہدایت دی ہے۔

رپورٹس کے مطابق دہلی کے لوک نائک اسپتال کو نئے ویریئنٹ کے مریضوں کے علاج کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔

اسی طرح مہاراشٹرا، پنجاب، کرناٹک، تمل ناڈو، اترپردیش، بھارت کے زیر انتظام کشمیر، مدھیہ پردیش اور تیلنگانہ میں نئے ویریئنٹ سے مقابلے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG