سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس دوبارہ جیتنے کی کوشش میں چھ جنوری 2021 کا کیپٹل ہل پر ہونے والی ہنگامہ آرائی کا دن اس سال ریاست آئیووا میں دو انتخابی ریلیز کے انعقاد کے ساتھ گزاریں گے۔
جب کہ امریکی سیاسی تاریخ کے اس اہم دن کے حوالے سےصدر جوبائیڈن ایک روز قبل جمعے کو پینسلوانیا میں ویلی فورج پہنچے ہیں۔ چھ جنوری کو علاقے میں شدید موسم کی پیش گوئی کے پیش نظر انہوں نےاپنا دورہ ایک روز پہلے کیا ہے۔
ویلی فورج وہ جگہ ہے جہاں جارج واشنگٹن اور کانٹی نینٹل آرمی نے امریکی انقلاب کے دوران سخت سردی کا سامنا کیا تھا۔ صدر کے مشیروں نے اس سے قبل کہا تھا کہ وہ اس دورے میں چھ جنوری کو کیپیٹل ہل کے محاصرے اور ٹرمپ کے کردار کو اجاگر کریں گے۔
جب کہ نائب صدر کاملا ہیرس ہفتے کے روز جنوبی کیرولائنا کے ساحلی علاقے مرٹل میں ایک کنونشن میں صدر بائیڈن کے پیغام کو آگے بڑھاتے ہوئے امریکی آزادیوں اور اصولوں پر بات کریں گی۔
صدر بائیڈن اور سابق صدر ٹرمپ دونوں ایک ہی موضوع کو اپنے اپنے موقف کے ساتھ پیش کر رہے ہیں اور ممکنہ طور پر 2024 کا صدارتی دنگل وہیں سے شروع ہونے جا رہا ہے جہاں 2020 کے صدارتی الیکشن کا میدان سجا تھا۔
دونوں کے بیانیے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گزشتہ صدارتی انتخابات میں نتائج کی توثیق کے مرحلے پر کیپیٹل ہل پر ایک بڑے ہجوم کی جانب سے ہونے والی دراندازی کو دونوں پارٹیاں کس طرح مختلف نظر سے دیکھتی ہیں۔
کیپیٹل ہل دراندازی پردونوں پارٹیوں کا مختلف نظر
چھ جنوری 2021 میں ٹرمپ کے حامیوں نے اس وقت کیپیٹل ہل پر دھاوا بول دیا تھا جب کانگریس کے اجلاس میں قانون ساز جو بائیڈن کی جیت کی توثیق کے عمل سے گزر رہے تھے۔
یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ قانون سازوں اور اس وقت کے نائب صدر مائیک پینس کو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا تھا اور صدارتی توثیق کا عمل کئی گھنٹوں کے لیے تعطل میں پڑ گیا تھا، اور امن و امان برقرار رکھنے والے اداروں کو ہجوم کو عمارت سے باہر نکالنے کے لیے کارروائی کرنی پڑی تھی۔
اس ہلوے کے نتیجے میں 9 افراد نے اپنی جانیں گنوائیں اور 700 سے زیادہ لوگوں کو عدالتوں میں پیش ہونا پڑ ا جن میں سے 450 کے لگ بھگ کو جیل کی سزائیں سنائی گئیں۔
واشنگٹن میں وفاقی پراسیکیوٹرز نے ٹرمپ پر انتخابی دھاندلی کے جھوٹے نظریات کی تشہیر اور نتائج کو پلٹنے کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے کیپٹل ہل کے بلوے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔ جب کہ ٹرمپ نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔
ٹرمپ اس سال نومبر میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ وہ ریپبلیکن پارٹی کی پرائمریز میں سبقت لے رہے ہیں ۔ وہ 6 جنوری کو ایک خوبصورت دن قرار دیتے ہیں اور کیپٹل ہل کے بغاوت کے مقدمے میں سزا پانے والوں کو عظیم محب وطن کہتے ہیں۔
ریپبلیکنز حکمت عملی امور کی ایک ماہر ایلس اسٹیورٹ کہتی ہیں کہ بہت سے ریپلیکن 6 جنوری کے واقعہ کو پسند نہیں کرتے لیکن وہ اس کے بارے میں جذباتی بھی نہیں ہیں۔ وہ ٹرمپ کی حمایت کر سکتے ہیں کیونکہ وہ بائیڈن کی اقتصادی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔
ریپبلیکن پارٹی کے پرائمریز میں کئی امیدوار ٹرمپ کے حریف ہیں جن میں فلوریڈا کے گورنر ران ڈی سینٹیس بھی شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 6 جنوری کو احتجاج ہوا تھا جو ختم ہو گیا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹرمپ کو بلوائیوں کے خلاف زیادہ قوت سے سامنے آنا چاہیے۔
اسی طرح ایک اور امیدوار نکی ہیلی ، جو ٹرمپ کے دور میں اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر تھیں، کہتی ہیں کہ 6 جنوری ایک اچھا نہیں بلکہ ایک خوفناک دن تھا۔
رائے عامہ کے جائزےکیا کہتے ہیں
پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق، کیپیٹل ہل پر حملے کے بعد کے دنوں میں، 52 فیصد امریکی بالغوں کا کہناتھا کہ ٹرمپ پر 6 جنوری کے واقعات کی بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ 2022 کے اوائل تک یہ تعداد گھٹ کر 43 فیصد ہو گئی تھی۔
ان امریکیوں کی تعداد جن کا موقف تھا کہ 6 جنوری کی ذمہ داری ٹرمپ پر نہیں ہے 2021 میں 24 فی صد تھی جو 2022 میں بڑھ کر 32 فی صد ہو گئی تھی۔
واشنگٹن پوسٹ میں یونیورسٹی آف میری لینڈ کے اس ہفتے جاری ہونے والے سروے کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ 10 میں سے 7 ریپبلیکن کہتے ہیں کہ اس حملے کے بارے میں بہت زیادہ کہا جا رہا ہے۔
صرف 18 فی صد کہتے ہیں کہ کیپیٹل ہل میں داخل ہونے والے مظاہرین بہت زیادہ پرتشدد تھے، جب کہ 2021 میں یہ تعداد 26 فی صد کے لگ بھگ تھی۔
دوسری جانب 77 فی صد ڈیموکریٹس کی اور 54 فی صد ایسے لوگوں کی رائے میں جن کا کسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں، مظاہرین بہت زیادہ پرتشدد تھے۔ اس رائے میں 2021 کے مقابلے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس اور این او آرسی سینٹر فار پبلک افیئرز ریسرچ کے دسمبر میں ہونے والے ایک سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ 87 فی صد ڈیموکریٹس اور 54 فی صد غیر جانبدار لوگوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے اقتدار کی دوسری مدت امریکی جمہوریت پر منفی اثر ڈالے گی جب کہ 82 فی صد ریپلیکنز کا کہنا ہے کہ بائیڈن کی ایک اور صدارتی مدت سے جمہوریت کمزور پڑ جائے گی۔ 56 فی صد غیر جانبدار لوگوں کی بھی یہی رائے ہے۔
2022 کے وسط مدتی انتخابات سے پہلے صدر بائیڈن نے کئی مرتبہ ٹرمپ کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ 2023 میں کیپیٹل ہل پر حملے کی دوسری برسی کے موقع پر اس عمارت کی حفاظت کرنے پر 14 افراد کو صدارتی تمغے دیے گئے اور پرتشدد ہجوم کی مذمت کی گئی۔
بائیڈن کی دوسری انتخابی مہم کی مینیجر جولی شاویز روڈریگز نے حال ہی میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ چھ جنوری کو جو کچھ ہوا وہ ہجوم نے ڈونلڈ ٹرمپ کے کہنے پر کیا۔
ٹرمپ کی مہم کے سینیئر مشیر وں کرس لاسیویٹا اور سوسی وائلز نے اس ہفتے کہا ہے کہ جو بائیڈن اور ان کے اتحادی ہماری جمہوریت کے لیے حقیقی اور زبردست خطرہ ہیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر اور کتاب “How Democracies Die ” کے شریک مصنف ڈینیئل زیبلاٹ کا کہنا ہے کہ جب ہر فریق ایک دوسرے کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دینے لگے تو یہ جمہوریت کے مستحکم ہونے کی علامت ہوتی ہے۔
( اس آرٹیکل کے لیے کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)