دنیا بھر کی طرح منگل کو پاکستان میں بھی کم عمر لڑکیوں کا عالمی دن منایا گیا اور اس موقع پر بچوں کی فلاح بہبود کے لیے کام کرنے والی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم "سیوو دی چلڈرن" کی جاری کردہ رپورٹ میں خاص طور پر کم عمری میں بچیوں کی شادی جیسے مسئلے کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ سے حاصل کردہ اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا میں ایک اندازے کے مطابق ہر سات سیکنڈ کے بعد 15 سال سے کم عمر ایک بچی بیاہی جاتی ہے جو کہ نہ صرف اس بچی کی صحت بلکہ دیگر حقوق سے محرومی کا سبب بنتی ہے۔
رپورٹ میں 144 ممالک میں کم عمری میں بچیوں کی شادی کی درجہ بندی میں پاکستان اٹھاسیویں (88) نمبر پر ہے۔
سیوو دی چلڈرن کے مطابق بچیوں کی کم عمر میں شادی کی وجوہات میں غربت ایک اہم ترین وجہ ہے۔
پاکستان کے صوبہ سندھ میں بننے والے ایک حالیہ قانون میں شادی کے لیے لڑکی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے لیکن دیگر صوبوں اور وفاق میں عمر کی یہ حد اب تک 16 سال ہی ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین چودھری محمود بشیر ورک اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ غربت اور معاشی ابتری بچیوں کی کم عمری میں شادی کی بڑی وجوہات ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں قانون تو موجود ہے لیکن شعور اور آگاہی کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کر کے ہی اس مسئلے پر قابو پانے میں مدد لی جا سکتی ہے۔
"معاشرے کو چوکنا رہنا چاہیے اور قانون نافذ کرنے والوں کو کسی سے بھی اس سلسلے میں کسی بھی طرح کی رعائت نہیں برتنی چاہیے۔۔۔اسے نصاب میں شامل کیا جائے اور پرائمری سے شامل کیا جائے۔"
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک سرگرم کارکن ربیعہ ہادی کہتی ہیں کہ کم عمری کی شادی سے بچیوں کی نہ صرف اپنی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ اس سے پیدا ہونے والے بچے بھی مختلف طبی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔
انھوں نے بھی اس ضمن میں شعور و آگاہی کے فروغ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے خاص طور پر چھوٹے علاقوں میں مساجد اور مذہبی علماؤں کی خدمات حوصلہ افزا پیش رفت کا باعث بن سکتی ہیں۔
سیوو دی چلڈرن کے مطابق فی الوقت دنیا میں کم عمری کی شادی کے واقعات کی تعداد 70 کروڑ ہے اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح سے چلتا رہا تو 2030ء میں یہ تعداد 95 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔