کرونا وبا سے متعلق ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس بیماری سے صحت یاب ہونے والے ہر تیسرے شخص کو بعدازاں ذہنی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
بدھ کو برطانوی جریدے 'دی لینسیٹ سائیکیٹری جرنل' میں شائع ہونے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے ہر تین میں سے ایک شخص ذہنی مسائل سے دوچار ہوا۔
اس تحقیق میں کرونا سے صحت یاب ہونے والے دو لاکھ 30 ہزار سے زائد افراد کے میڈیکل ریکارڈ کا جائزہ شامل کیا گیا ہے۔
تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ وبا سے متاثر ہونے کے چھ ماہ کے اندر 34 فی صد افراد میں نیورولوجیکل (دماغی) اور نفسیاتی مسائل کی تشخیص ہوئی۔
تحقیق کے مطابق 17 فی صد مریضوں کو بے چینی اور اضطراب جیسی عام کیفیت کا سامنا تھا جب کہ 14 فی صد مریضوں کو موڈ ڈس آرڈر (مزاج میں تبدیلیاں، خالی پن، اُداسی) کا سامنا تھا۔ ان مریضوں میں سے 13 فی صد ایسے تھے جن میں پہلی بار ذہنی صحت سے متعلق مسئلے کی تشخیص ہوئی۔
دوسری جانب اگر نیورولوجیکل ڈس آرڈر کی بات کی جائے تو تحقیق میں شامل کرونا وبا سے صحت یاب ہونے والے 0.6 فی صد مریضوں کو برین ہیمریج، 2.1 کو اسٹروک (اچانک دماغ کی رگ پھٹ جانا) اور 0.7 فی صد افراد کو ڈیمنشیا (بھولنے، سوچنے اور حافظہ متاثر ہونے والی بیماری) جیسی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
SEE ALSO: امریکہ میں کرونا وبا کا دباؤ، تمباکو نوشی کے خلاف کوششیں بھی متاثرالبتہ، نیورولوجیکل ڈس آرڈر ایسے مریضوں میں زیادہ پایا گیا جن کی کرونا وائرس کی وجہ سے حالت تشویش ناک ہو گئی تھی۔
اعدادوشمار سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اسپتال میں داخل ہونے والے 2.7 فی صد انتہائی نگہداشت کے مریضوں کو برین ہیمرج جب کہ سات فی صد کو اسٹروک کا سامنا کرنا پڑا۔ حالاں کہ اس صورتِ حال سے دوچار ایسے مریض جو اسپتال نہیں گئے اُن میں یہ شرح بالترتیب 0.3 اور 1.3 فی صد رہی۔
علاوہ ازیں تحقیق کرنے والے مصنفین نے ایک لاکھ سے زائد انفلوئنزا میں مبتلا اور دو لاکھ 36 ہزار سے زائد سانس کی نالی کے انفیکشن میں مبتلا مریضوں کے اعدادو شمار کا بھی جائزہ لیا ہے۔
اعدادو شمار میں یہ دیکھا گیا کہ فلو کے بعد ذہنی مسائل میں مبتلا ہونے سے زیادہ کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد مجموعی طور پر 44 فی صد افراد کو ذہنی صحت کا خطرہ لاحق ہے۔
برطانیہ کی آکسفرڈ یونیورسٹی سے وابستہ اور مذکورہ تحقیق کے مصنف پال ہیریسن کا کہنا ہے کہ اگرچہ انفرادی طور پر کرونا وائرس کی وجہ سے نیورولوجیکل اور نفسیاتی خطرات کم تھے لیکن عالمی آبادی میں اس کے مجموعی اثرات زیادہ ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نتیجتاً پرائمری اور سیکنڈری دونوں سروسز کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے صحت کے وسائل کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔