یونان میں تارکینِ وطن کی کشتیاں ڈوبنے کے تین واقعات، پاکستانی سمیت کئی افراد ہلاک

فائل فوٹو

  • ہفتے کے روز سے یونان کے ساحل کے قریب تین مختلف مقامات پر تارکینِ وطن کی کشتیاں ڈوبنے کے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔
  • یونانی کوسٹ گارڈز کے مطابق پہلی کشتی کریٹ کے مقام پر الٹی تھی جس میں سوار 39 کو ریسکیو کر لیا گیا ہے جب کہ متعدد لاپتا ہیں۔
  • اسی طرح جزیرے گیودس کے پاس کشتی الٹنے کے بعد ایک کارگو جہاز نے 47 افراد کو ریسکیو کیا۔
  • یونان کے جنوب میں ایک جزیرے کے قریب ٹینکر نے 88 تارکینِ وطن کو محفوظ بنایا۔
  • ان کشتیوں میں سے ایک میں سوار متعدد تارکینِ وطن کا تعلق پاکستان سے تھا۔
  • پاکستانی دفترِ خارجہ کے مطابق 47 پاکستانی ریسکیو ہو چکے ہیں۔
  • حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ کشتی میں سوار کتنے پاکستانی ہلاک اور لاپتا ہیں: حکام
  • حکام اب تک ایک پاکستانی شہری کی ہلاکت کی تصدیق کر چکے ہیں۔

ویب ڈیسک — یونان کے جنوب میں جزیرے گیودس میں تارکین وطن کی کشتی الٹنے کا ایک اور واقعہ رپورٹ ہوا ہے جس میں کئی افراد کے ہلاک اور متعدد کے لاپتا ہونے کی رپورٹس موصول ہوئی ہیں۔

تارکینِ وطن کی کشتی ڈوبنے سے کم از کم پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ درجنوں افراد لاپتا ہیں۔

یونان کی کوسٹ گارڈ فورس کے مطابق قبل ازیں ڈوبنے والی ایک کشتی میں سوار افراد میں سے 39 کو ریسکیو کر لیا گیا ہے جس میں سے اکثریت کا تعلق پاکستان سے تھا۔

رپورٹس کے مطابق ان افراد کو اس راستے سے گزرنے والے ایک کارگو بحری جہازوں نے ریسکیو کیا۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق کشتیاں ڈوبنے کے واقعات سامنے آنے کے بعد ان میں سوار تارکینِ وطن کے ریسکیو کا عمل ابھی بھی جاری ہے۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے قبل ازیں بتایا تھا یونان کے جزیرے کریٹ کے قریب تارکینِ وطن کی کشتی الٹنے کے حادثے میں ایک پاکستانی کے ہلاک ہوا ہے۔

دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس کشتی میں سوار کتنے پاکستانی ہلاک ہوئے اورمزید کتنے لاپتا ہیں۔

رپورٹس کے مطابق یونانی حکام کو واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد شروع کیے جانے والے ریسکیو کے عمل میں کوسٹ گارڈز کی کشتیاں، اس علاقے میں موجود کارگو جہاز، اٹلی کی بحریہ کی کشتیاں اور طیارے شامل ہیں۔

ہفتے کو پیش آنے والے ایک اور واقعے میں مالٹا سے تعلق رکھنے والی کارگو جہاز نے گیودس جزیرے سے 40 ناٹیکل میل کے فاصلے پر ڈوبنے والی کشتی کے 47 تارکینِ وطن کو ریسکیو کیا تھا۔

SEE ALSO: انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والوں کو کن مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے؟

رپورٹس کے مطابق ان دونوں واقعات کے علاوہ ایک اور واقعے میں یونان کے جنوب میں ایک چھوٹے جزیرے سے 28 ناٹیکل میل کے فاصلے پر ایک ٹینکر نے 88 تارکینِ وطن کو ریسکیو کیا تھا۔

ابتدائی رپورٹس کے مطابق کوسٹ گارڈز حکام کو شبہ ہے کہ یہ تمام کشتیاں ان میں سوار تارکینِ وطن کو غیر قانونی طور پر یورپ پہنچانے کے لیے لیبیا سے ایک ساتھ روانہ ہوئی تھیں۔

یونان سال 16-2015 کے بعد سے مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا سے آنے والے تارکینِ وطن اور پناہ گزینوں کے لیے غیر قانونی طور پر یورپ پہنچنے کا ایک مؤثر راستہ رہا ہے جہاں اب تک کے اندازوں کے مطابق لگ بھگ 10 لاکھ افراد غیر قانونی طریقوں سے مختلف جزیروں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

رپورٹس کے مطابق وسطی بحیرۂ روم میں نسبتاً الگ تھلگ واقع جزیرے کریٹ اور اس کے پڑوسی میں ایک نسبتاََ چھوٹے گیودس جزیرے کے قریب تارکین وطن کی کشتیوں اور بحری جہازوں کے حاثات کے واقعات میں گزشتہ سال سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔

SEE ALSO: پاکستان سے 'ڈنکی' لگا کر یورپ پہنچانے کا نیٹ ورک کیسے چلایا جا رہا ہے؟

یونان کے سال کے قریب گزشتہ برس 2023 میں سیکڑوں تارکینِ وطن اس وقت ڈوب گئے جب جنوب مغربی یونانی ساحلی قصبے پائلوس کے قریب ایک کشتی ڈوب گئی تھی۔ اصل میں یہ مچھلیاں پکڑنے کے لیے استعمال ہونے والا ایک بڑا بحری ٹرالر تھا جس میں 400 افراد کو سوار کرنے کی گنجائش تھی۔ البتہ اس میں لگ بھگ ساڑھے سات سو افراد سوار تھے۔

پاکستانی حکام نے اس وقت بتایا تھا کہ اس کشتی میں چار سو پاکستانی شہری بھی شامل تھے جب کہ افغانستان، شام، مصر سمیت کچھ فلسطینیوں کے اس میں سوار ہونے کی رپورٹس سامنے آئی تھیں۔ اس کشتی ڈوبنے کے واقعے میں 82 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی تھی۔

یہ واقعہ بحیرۂ روم میں تارکینِ وطن کی کسی کشتی ڈوبنے سے ہونے والی اموات میں سے سب سے ہلاکت خیز واقعہ قرار دیا جاتا تھا۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔